فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا ۖ قَالَ كَبِيرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَيْكُم مَّوْثِقًا مِّنَ اللَّهِ وَمِن قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِي يُوسُفَ ۖ فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ حَتَّىٰ يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللَّهُ لِي ۖ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ
جب وہ لوگ اس کی جانب سے بالکل ناامید (٦٨) ہوگئے، تو ایک ساتھ الگ جمع ہو کر مشورہ کرنے لگے، بڑے بھائی نے کہا کیا تمہیں یا نہیں ہے کہ تمہارے باپ نے تم سے اللہ کے نام پر عہد و پیمان لیا تھا، اور اس سے پہلے یوسف کے سلسلے میں تم سے جو تقصیر ہوچکی ہے وہ تمہیں معلوم ہی ہے، اس لیے میں اس ملک سے واپس نہیں جاؤں گا، یہاں تک میرے والد مجھے اجازت دیں یا اللہ میرے حق میں کوئی فیصلہ کردے، اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔
[٧٧] بڑے بھائی کا واپس جانے سے انکار :۔ جب یوسف علیہ السلام نے ایسا احسان کرنے سے صاف جواب دے دیا تو سب بھائی تنہائی میں جاکر موجودہ پریشان کن صورت حال پر غور کرنے لگے۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن والا معاملہ بن گیا تھا۔ اگر انہوں نے پہلے یوسف کے معاملہ میں زیادتی نہ کی ہوتی تو اب صورت حال اس قدر سنگین نہ ہوتی۔ ان حالات میں بڑے بھائی نے سابقہ واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے آپ کو اپنے باپ کو منہ دکھانے کے قابل نہیں سمجھتا۔ البتہ تم لوگ جاکر باپ کو اس صورت حال سے مطلع کردو۔ میں یہیں رہوں گا اور پھر کوشش کروں گا کہ بن یمین کو ان لوگوں سے لاسکوں یا پھر مجھے موت آجائے، یا اگر میرا باپ مجھے اپنے پاس آنے کا حکم دے۔ تب ہی میں اپنے باپ کو منہ دکھا سکتا ہوں۔ اب جو بات اللہ کو منظور ہوگی وہی میرے لیے قابل قبول ہوگی اور وہی میرے حق میں کوئی بہتر فیصلہ کرے گا۔ بہرحال میں تمہارے ساتھ گھر جانے کو تیار نہیں اور اس پر موت کو ترجیح دیتا ہوں۔