قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ أَن نَّأْخُذَ إِلَّا مَن وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِندَهُ إِنَّا إِذًا لَّظَالِمُونَ
عزیز نے کہا، ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ اس کے علاوہ کسی اور کو پکڑیں (٦٧) جس کے پاس ہم نے اپنا سامان پایا ہے تب تو ہم یقینا ظالم ہوں گے۔
[٧٦] جب یہ واقعہ پیش آگیا تو برادران یوسف کو فوراً خیال آیا کہ اب ہم اپنے باپ کو کیا منہ دکھاسکتے ہیں جس سے اتنا پختہ عہد کیا تھا کہ ہم بن یمین کو ضرور ساتھ لائیں گے الا یہ کہ ہم پر ہی کوئی آفت نہ پڑجائے۔ اب اگر یہ اس کے دس بھائی باپ کے پاس جاتے اور صرف بن یمین ساتھ نہ ہوتا تو اس سے زیادہ ان کے جھوٹ اور مکر و فریب کا اور کیا ثبوت ہوسکتا تھا۔ بالخصوص اس صورت میں کہ سیدنا یوسف والے واقعہ کی وجہ سے باپ پہلے ہی ان کی طرف سے بدظن تھا۔ اب لگے سیدنا یوسف علیہ السلام کے سامنے منت و سماجت کرنے کہ آپ نے ہم پر پہلے بھی بہت احسان کئے ہیں ایک یہ بھی کردیجئے کہ اس بن یمین کے بجائے ہم میں سے کوئی ایک اپنے ہاں غلام رکھ لیجئے کیونکہ اس کا باپ بہت بوڑھا بزرگ ہے اس کی جدائی کا صدمہ برداشت نہ کرسکے گا۔ اس کے جواب میں سیدنا یوسف علیہ السلام کہنے لگے کہ ایسا ظلم ہم کیسے کرسکتے ہیں ہم تو اسی کو اپنے پاس رکھیں گے جس کے سامان سے ہمارا گم شدہ مال برآمد ہوا ہے۔ اس مقام پر بھی سیدنا یوسف علیہ السلام نے بن یمین کو چور نہیں کہا نہ ان پر چوری کا الزام لگایا۔ کیونکہ فی الحقیقت انہوں نے چوری نہیں کی تھی۔