وَلَمَّا دَخَلُوا عَلَىٰ يُوسُفَ آوَىٰ إِلَيْهِ أَخَاهُ ۖ قَالَ إِنِّي أَنَا أَخُوكَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور جب وہ لوگ یوسف کے پاس گئے، تو انہوں نے اپنے بھائی (بنیامین) کو اپنے قریب (٦١) کرلیا اور کہا میں ہی تمہارا بھائی ہوں، یہ لوگ جو کچھ اب تک کر رہے ہیں اس کا غم نہ کرو۔
[٦٨] دو بچھڑے ہوئے بھائیوں کی اتفاقی ملاقات :۔ برادران یوسف جیسے سیدنا یوسف علیہ السلام سے حسد رکھتے تھے۔ ویسے ہی بن یمین سے بھی رکھتے تھے کیونکہ سیدنا یوسف علیہ السلام سے جدائی کے بعد بن یمین باپ کی توجہ کا مرکز و محور بن گئے تھے۔ چنانچہ روانگی کے بعد راستہ میں اسے طعن و تشنیع سے کو ستے رہے اور طرح طرح سے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتے رہے تھے جب یہ لوگ مصر میں داخل ہوئے تو سیدنا یوسف علیہ السلام نے ان کا استقبال کیا اور شاہی مہمان خانہ میں ٹھہرایا۔ دو دو بھائیوں کو الگ الگ کمرہ رہنے کو دیا۔ بن یمین اکیلا رہ گیا تو آپ نے اسے کہا میں تمہارے پاس رہوں گا۔ چنانچہ جب تنہائی میسر آئی تو سیدنا یوسف علیہ السلام نے بن یمین کو بتایا کہ میں ہی تمہارا گم شدہ بھائی ہوں۔ طویل مدت کے فراق اور مایوسی کے بعد و حقیقی بھائیوں کی اس طرح ہنگامی ملاقات کے دوران طرفین کے جذبات میں جو تلاطم برپا ہوتا ہے اسے عموماً سب لوگ جانتے ہیں۔ وہی سب کچھ یہاں بھی ہوا۔ سیدنا یوسف علیہ السلام نے کنویں میں پھینکے جانے کے وقت سے لے کر موجودہ وقت تک کے سب حالات سنا دیئے اور چھوٹے بھائی بن یمین نے اپنے گھر کے حالات، بیٹے کے فراق میں سیدنا یعقوب کی داستان غم کی تفصیلات اور اپنی ذات پر بھائیوں کے ناروا سلوک کے حالات سنائے تو سیدنا یوسف علیہ السلام نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا جو ہوچکا سو ہوچکا۔ اب تمہارے بھائی تمہیں کوئی تکلیف نہ پہنچا سکیں گے میں کوئی ایسی تدبیر کروں گا کہ تمہیں ان کے ساتھ روانہ ہی نہ کروں گا۔ مگر ہماری اس مجلس کی باتوں کا ان سے قطعاً ذکر نہ کرنا اور نہ ہی میرے متعلق ابھی انھیں کچھ بتانا۔