وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ إِلَّا حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا ۚ وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
اور جب وہ لوگ (مصر میں) اسی طرح داخل ہوئے جس طرح ان کے باپ نے انہیں حکم دیا تھا، تو یہ تدبیر اللہ کی کسی تدبیر کو ان سے نہیں ٹال (٦٠) سکتی تھی، یہ تو یعقوب کے دل کی ایک بات تھی جو انہوں نے پوری کی تھی اور ہم نے انہیں جو علم دیا تھا اس کے سبب وہ (تدبیر و تقدیر کے مسائل کو) خوب جانتے تھے، لیکن اکثر لوگ یہ نہیں جانتے ہیں۔
[٦٦] یعنی سیدنا یعقوب علیہ السلام کے دل کا ارمان یہ تھا کہ یہ سب بھائی بخیر و عافیت مصر جائیں اور وہاں سے غلہ لے کر بخیروعافیت واپس پہنچ جائیں۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام کی تدبیر اور ان کا بھروسہ اس اندیشے میں تو کام آگیا کہ انھیں نظر نہیں لگی۔ لیکن ان کے دل کا ارمان پورا نہ ہوسکا۔ کیونکہ اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ لہٰذا ان کی یہ تدبیر اللہ کی اس تقدیر کے مقابلہ میں کچھ کام نہ آسکی۔ جس کے متعلق انھیں خیال تک بھی نہیں آسکتا تھا۔ [٦٧] سیدنا یعقوب کی بیٹوں کو نصیحت اور اللہ کی تقدیر :۔ وہ تعلیم جو اللہ تعالیٰ نے سیدنا یعقوب علیہ السلام کو دی تھی یہ تھی کہ محض ظاہری تدبیر پر ہی بھروسہ نہ کر بیٹھنا چاہیے بلکہ ظاہری تدابیر اختیار کرنے کے بعد بھی بھروسہ اللہ ہی پر کرنا چاہیے اور یہی تعلیم وہ اپنے بیٹوں کو دے رہے تھے۔ مگر اکثر لوگ اس تعلیم سے واقف نہیں، وہ صرف ظاہری اسباب پر ہی بھروسہ کرلیتے ہیں یا پھر کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ محض اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں اور ظاہری اسباب اختیار نہیں کرتے یا ان کی پروا نہیں کرتے۔ یہ دونوں باتیں غلط اور اللہ کی دی ہوئی تعلیم کے خلاف ہیں۔