وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَىٰ رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ ۚ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ
اور بادشاہ نے کہا، اسے میرے پاس لاؤ (٤٤) پس جب ان کے پاس قاصد آیا، تو انہوں نے کہا، اپنے بادشاہ کے پاس واپس جاؤ، اور اس سے پوچھو کہ ان عورتوں کے بارے میں اسے کیا خبر ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے، بیشک میرا رب ان کے مکرو فریب کو خوب جانتا ہے۔
[٤٩] الزام کی بریت سے پہلے سیدنا یوسف کا قید سے باہر آنے سے انکار :۔ بادشاہ کو جب ساقی نے قید خانہ سے واپس جاکر یہ تعبیر، یہ تدبیر اور یہ بشارت سنائی تو وہ عش عش کر اٹھا۔ اس کے دل سے وحشت دور ہوگئی اور اطمینان حاصل ہوگیا۔ وہ سیدنا یوسف علیہ السلام کے علم و فضل سے بہت متاثر ہوا اور کہنے لگا کہ ایسے شخص کو میرے پاس لایا جائے تاکہ میں اس کی زیارت سے فیض یاب ہوسکوں اور اس کے مرتبہ اور اس کی قابلیت کے مطابق اس کی عزت و تکریم کروں۔ جب بادشاہ کا پیغامبر یہ پیغام لے کر قید خانہ میں سیدنا یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچا اور آپ کو بادشاہ کا پیغام اور قید سے رہائی کی خوشخبری سنائی تو بجائے اس کے کہ آپ علیہ السلام اس پیغامبر پر خوش ہوتے آپ علیہ السلام نے قید سے باہر آنے سے انکار کردیا اور پیغامبر سے کہا کہ واپس جاکر پہلے بادشاہ سے اس قضیہ کا فیصلہ کراؤ جس کی وجہ سے مجھے قید میں ڈالا گیا تھا۔ یعنی اس عورتوں والے قصے کی کیا صورت حال ہے جبکہ انہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے۔ بالفاظ دیگر آپ کا جواب یہ تھا کہ جب تک میرے اس جرم بے گناہی کی تحقیق نہ ہوجائے اور میری پوری طرح بریت نہ ہوجائے میں قید سے باہر آنے کو تیار نہیں۔ پھر آپ علیہ السلام نے اپنے مطالبہ میں اصل مجرم زلیخا کا نام عمداً نہ لیا کیونکہ اس کا خاوند آپ علیہ السلام کا محسن اور انصاف پسند آدمی تھا آپ اسے بدنام نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بلکہ اجمالاً ان سب ہاتھ کاٹنے والی عورتوں کا ذکر کردیا۔ کیونکہ وہ سب ہی اس جرم میں زلیخا کی ہمنوا بن گئی تھیں اور ان سب نے مل کر ہی آپ کو قید خانے میں ڈلوایا تھا۔ آپ نے یہ بھی واضح فرما دیا کہ میرا پروردگار تو میری بے گناہی اور عفت کو جانتا ہے۔ مگر میں یہ چاہتا ہوں کہ کسی ناواقف حال کے دل میں بھی یہ شائبہ نہ رہے کہ شاید اس معاملہ میں یوسف کا بھی کچھ قصور ہو۔