سورة یوسف - آیت 42

وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ان دونوں میں سے جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ نجات پاجائے گا اس سے کہا (٣٨) کہ اپنے بادشاہ سے میرے بارے میں بات کرنا، لیکن شیطان نے اس کے دماغ سے یہ بات بھلا دی کہ بادشاہ کے سامنے ان کا تذکرہ کرتا، اس لیے انہیں کئی سال تک جیل میں رہنا پڑا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤١] لفظ ظن کے بعد جب اَن کا لفظ آئے تو یہ یقین کا معنی دیتا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے مفردات القرآن از امام راغب اصفہانی) اور قرآن میں اس کی مثالیں اور بھی بہت ہیں۔ جیسے ﴿الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ ﴾(۲:۴۲)یعنی جو لوگ یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں اور یوسف علیہ السلام کو ساقی کے متعلق یہ یقین تھا کہ وہ قید سے رہا ہو کر اپنی سابقہ ملازمت پر بحال کردیا جائے۔ جب وہ قید خانہ سے جانے لگا تو یوسف علیہ السلام نے اسے کہا کہ بادشاہ سے میرے متعلق بھی تذکرہ کرنا کہ ایک بے قصور آدمی مدت سے قید خانہ میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس کی طرف آپ کی توجہ کی ضرورت ہے۔ [٤٢] سیدنا یوسفؑ کی قید کی مدت :۔ لیکن وہ رہا ہونے والا ساقی اپنی رہائی کی اور پھر ملازمت کی بحالی کی خوشخبری میں کچھ اس طرح مگن اور بے خود ہوا کہ اسے بادشاہ کے سامنے اپنے محسن سیدنا یوسف علیہ السلام کا ذکر کرنا یاد ہی نہ رہا اور نسیان کی نسبت شیطان کی طرف اس لیے کہ گئی ہے کہ شیطان کسی بھی اچھے کام میں ممدو معاون نہیں ہوا کرتا۔ اس کے وساوس ایسے ہی ہوتے ہیں کہ یا تو کوئی کارخیر سرانجام ہی نہ پائے یا اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر جتنی بھی اس کار خیر میں زیادہ سے زیادہ تاخیر ہو وہی اس کا مقصود ہوتا ہے جیسے اللہ کے ذکر سے غفلت کی نسبت قرآن نے عموماً شیطان ہی کی طرف ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کئی سال مزید آپ کو قید میں ہی گزر گئے اور آپ علیہ السلام کے معاملہ کی طرف توجہ کا کسی کو خیال تک نہ آیا۔ قرآن نے ﴿بِضْعَ سِنِیْنَ ﴾ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس کا اطلاق دس سے کم طاق اعداد پر ہوتا ہے اور مفسرین کے اقوال کے مطابق آپ کی قید کی مدت ٧ سال یا ٩ سال تھی۔