وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ ۖ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَن رَّأَىٰ بُرْهَانَ رَبِّهِ ۚ كَذَٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ ۚ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ
اور اس عورت نے ان کے ساتھ گناہ کا پختہ ارادہ (٢٤) کرلیا تھا، اور وہ بھی اپنے رب کا برہان نہ دیکھتے تو اس کے ساتھ ایسا ہی ارادہ کرلیتے، اور ایسا اس لیے ہوا تاکہ ہم ان سے برائی و بدکاری کو دور کردیں، بیشک وہ ہمارے ان بندوں میں سے تھے جو برائیوں سے پاک کردئے گئے۔
[٢٤] عصمت انبیاء کا مفہوم :۔ جب زلیخا نے اس دعوت میں اپنے آپ کو ناکام پایا اور اس میں اپنی مزید خفت محسوس کی تو اس نے اس بدکاری کے کام کو سرانجام دینے کا تہیہ کرلیا اور خود یوسف تک پہنچ کر دست درازی شروع کردی۔ اس آڑے وقت میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کی خاص رہنمائی فرمائی اور ان کی نگہداشت فرمائی۔ اس وقت اللہ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو کون سی دلیل یا برہان دکھائی تھی وہ وہی ہے جس کا سابقہ آیات میں ذکر ہوچکا ہے۔ یعنی سیدنا یوسف اپنے سابقہ جواب اور عزم پر ہی ڈٹے رہے۔ اس طرح اللہ نے انھیں اس بدفعلی کے ارتکاب سے محفوظ رکھا۔ یہیں سے عصمت انبیاء کی حقیقت معلوم ہوجاتی ہے یعنی وہ بھی بشر ہی ہوتے ہیں اور بشری تقاضوں سے مجبور ہو کر گناہ کا ارتکاب ان سے بھی ہوسکتا ہے۔ مگر اللہ انھیں ایسے کاموں سے بچائے رکھتا ہے اور ان سے کوئی چھوٹی موٹی لغزش ہو بھی جائے تو بذریعہ وحی ان کی اصلاح کردی جاتی ہے۔