وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِن مِّصْرَ لِامْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَىٰ أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا ۚ وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
اور مصر کے جس آدمی نے انہیں خریدا (٢١) اس نے اپنی بیوی سے کہا، اسے باعزت رہائش دو، امید ہے کہ یہ ہمارے لئے نفع بخش ثابت ہوگا، یا ہم اسے بیٹا بنا لیں گے، اور اس طرح ہم نے یوسف کے لئے سر زمین مصر میں رہائش مہیا کردی، اور تاکہ ہم انہیں خوابوں کی تعبیر کا علم دیں اور اللہ اپنے فیصلے پر غالب ہے، لیکن اکثر لوگ اسے نہیں جانتے ہیں۔
[١٩] مصر میں جس شخص نے اس لڑکے کو خریدا وہ کسی اعلیٰ سرکاری منصب پر فائز تھا اور بے اولاد تھا۔ اس نے لڑکے کی شکل و صورت اور عادات و خصائل دیکھ کر ہی یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ لڑکا غلام نہیں ہوسکتا۔ یہ تو کسی معزز خاندان کا ایک فرد ہے جسے حوادث زمانہ نے یہاں تک پہنچا دیا ہے۔ لہٰذا اس نے اپنے گھر کا سارا انتظام اور کام کاج سیدنا یوسف علیہ السلام کے سپرد کردیا اور بیوی سے تاکیداً کہہ دیا کہ اسے غلام نہ سمجھو بلکہ گھر کا ایک فرد سمجھو اور عزت و وقار سے رکھو، یہ ہمارے لیے بہت سود مند ثابت ہوگا اور کیا عجب کہ ہم اسے اپنا متبنّیٰ ہی بنالیں۔ [٢٠] تاویل الاحادیث سے مراد رموز مملکت اور اصول حکمرانی ہیں :۔ عزیز مصر کے ہاں سیدنا یوسف علیہ السلام کو اس طرح کا باوقار مقام حاصل ہوجانا اس مستقبل کی طرف پہلا زینہ تھا جس میں آپ علیہ السلام کو پورے ملک مصر کی حکومت اللہ کی طرف سے عطا ہونے والی تھی۔ آپ علیہ السلام کی سابقہ زندگی خالصتاً بدوی ماحول میں گزری تھی اور اس سابقہ زندگی میں بدوی زندگی کے محاسن اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے صرف اکیلے اللہ کی پرستش اور دینداری کے عنصر ضرور شامل تھے مگر اللہ تعالیٰ اس وقت کے سب سے زیادہ متمدن اور ترقی یافتہ ملک یعنی مصر میں آپ سے جو کام لینا چاہتا تھا اور اس کام کے لیے جس واقفیت تجربے اور بصیرت کی ضرورت تھی وہ آپ علیہ السلام کو عزیز مصر کے گھر میں مختار کی حیثیت سے رہنے میں میسر آگئی۔ اس آیت میں تاویل الاحادیث سے مراد یہی رموز مملکت ہیں اور اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے جس طرح اسباب کے رخ کو موڑ دیا وہ اکثر لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا۔