سورة یوسف - آیت 19

وَجَاءَتْ سَيَّارَةٌ فَأَرْسَلُوا وَارِدَهُمْ فَأَدْلَىٰ دَلْوَهُ ۖ قَالَ يَا بُشْرَىٰ هَٰذَا غُلَامٌ ۚ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَةً ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَعْمَلُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ایک قافلہ آیا (١٩) انہوں نے اپنے پانی لانے والے کو (پانی کے لیے) بھیجا، اس نے جوں ہی اپنا ڈول کنواں میں ڈالا، پکار اٹھا، ہمارے لیے خوشخبری ہے، یہ تو ایک لڑکا ہے، اور انہوں نے مال تجارت سمجھ کر قافلہ والوں سے چھپا لیا، اور اللہ ان کے کیے کو خوب جان رہا تھا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٧] قافلہ والوں کا یوسف کو کنوئیں سے نکالنا :۔ برادران یوسف، یوسف علیہ السلام کو اس طرح ٹھکانے لگانے کے بعد اس کی خبر اور نگہداشت بھی رکھتے تھے۔ اتفاق سے ایک آدھ دن ہی بعد ایک قافلہ کا جو مدین سے مصر کی طرف جارہا تھا وہاں سے گزر ہوا۔ انہوں نے ایک آدمی کو پانی کی تلاش میں بھیجا جب وہ اس کنویں پر پہنچا اور پانی حاصل کرنے کی خاطر اپنا ڈول اس کنویں میں ڈالا تو یوسف اس ڈول میں بیٹھ گئے اور رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ پانی کھینچنے والے نے جب ڈول اوپر کھینچا تو اس میں پانی کے بجائے ایک خوبصورت لڑکا دیکھا، جسے دیکھ کر اس کی باچھیں کھل گئیں اور خوشی سے فوراً اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا۔ آہا۔ یہ تو خوبصورت لڑکا مل گیا ہے۔ ان دنوں بردہ فروشی کا عام رواج تھا اور یہ قافلہ بھی تجارتی قافلہ تھا۔ انھیں ایسے خوبصورت لڑکے کا اس طرح مل جانا ان کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ تھی۔ لہٰذا قافلہ والوں نے اس واقعہ کو مشہور کرنا مناسب نہ سمجھا کہ مبادا یہ واقعہ سن کر اس بچے کا کوئی دعویدار اٹھ کھڑا ہو۔