سورة البقرة - آیت 154

وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ (230) نہ کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تم (اس زندگی کا) شعور نہیں کرپاتے ہو

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٩٤] کیونکہ موت کا لفظ اور اس کا تصور انسان کے ذہن پر ایک ہمت شکن اثر ڈالتا ہے اور لوگوں میں جذبہ جہاد فی سبیل اللہ کے سرد پڑجانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ لہٰذا شہداء کو مردہ کہنے سے روک دیا گیا۔ علاوہ ازیں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شہید کی موت قوم کی حیات کا سبب بنتی ہے اور شہید دراصل حیات جاوداں پا لیتا ہے اور اس سے روح شجاعت بھی تازہ رہتی ہے۔ [۱۹۴۔۱] شہداء کی زندگی :۔صحیح احادیث میں وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے جسم میں ہوتی ہیں اور ان کے لیے عرش کے ساتھ کچھ قندیلیں لٹکی ہوئی ہیں۔ یہ روحیں جنت میں جہاں چاہتی ہیں سیر کرتی پھرتی ہیں۔ پھر ان قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارۃ باب فی بیان ان ارواح الشھداء فی الجنۃ وانھم احیاء عند ربھم یرزقون) نیز دیکھئے : ٣ : ١٢٩)