إِذْ قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ
جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا اے ابا ! (٤) میں نے گیارہ ستاروں اور آفتاب و ماہتاب کو اپنا سجدہ کرتے دیکھا ہے۔
[٣] سیدنا یوسف علیہ السلام سے ان کے باپ کی محبت کی وجوہ :۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کے حقیقی بھائی صرف بن یمین تھے جو آپ سے چھوٹے تھے۔ باقی دس بھائی سوتیلے تھے۔ اور ان سے بڑے تھے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام سے ان کے والد سیدنا یعقوب علیہ السلام کو والہانہ محبت تھی۔ جس کی وجوہ کئی ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ والدین کو عموماً چھوٹی اولاد سے نسبتاً زیادہ پیار ہوتا ہے۔ دوسرے ان دو بھائیوں کی والدہ فوت ہوچکی تھیں۔ تیسرے سیدنا یوسف علیہ السلام بہت خوبصورت اور حسین و جمیل تھے اور چوتھے یہ کہ آپ علیہ السلام سب بھائیوں کی نسبت نیک سیرت تھے۔ انہی وجوہ کی بنا پر آپ اپنے والد کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ جس سے بڑے بھائی ان سے حسد کرنے لگے تھے۔ کم سنی کی عمر میں ہی آپ علیہ السلام کو ایک خواب آیا اور آپ نے اپنے والد کو بتایا تو انھیں اس خواب میں بیٹے کا روشن مستقبل نظر آگیا کیونکہ خواب بڑا واضح تھا جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ تھی۔ گیارہ ستاروں سے مراد گیارہ بھائی تھے۔ سورج سے مراد سیدنا یوسف علیہ السلام کے والد سیدنا یعقوب علیہ السلام اور چاند سے مراد ان کی سوتیلی والدہ تھی۔ سجدہ تعظیمی ؟ رہی یہ بات کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا تو شرک ہے پھر باپ نے جو نبی تھے اور بیٹے نے جو نبی ہونے والے تھے۔ اس بات کو درست کیسے تسلیم کرلیا تو اس کا جواب بعض علماء نے یہ دیا ہے یہ سجدہ تعظیمی ہے جو پہلی شریعتوں میں تو جائز تھا۔ مگر ہماری شریعت محمدیہ میں ایسا تعظیمی سجدہ بھی حرام قرار دیا گیا ہے اور بعض علماء کے نزدیک یہاں سجدہ سے مراد اصطلاحی سجدہ نہیں جو نماز میں ادا کیا جاتا ہے بلکہ سجدہ سے مراد محض جھک جانا ہے اور یہی اس کا لغوی معنی ہے۔ مگر اسی سورۃ کے آخر میں ﴿خَرُّوْا لِلّٰہِ سُجَّدًا﴾کے الفاظ آئے ہیں اور لفظ ﴿خَرُّوْا﴾سے پہلے قول کی ہی تصدیق ہوتی ہے۔