نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَٰذَا الْقُرْآنَ وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ
اور ہم اس قرآن کو آپ پر بذریعہ وحی اتار کر آپکو سب سے اچھا قصہ (٣) سناتے ہیں، اگرچہ آپ اس کے قبل اس سے بے خبر تھے۔
[٢] قریش مکہ کا یہود کے کہنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال، بنی اسرائیل مصر کیسے پہنچ گئے؟:۔ اس سورۃ کا شان نزول یہ ہے کہ کفار مکہ نے یہود سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا سوال بتلاؤ جو ہم اس پیغمبر سے پوچھیں اور اس سوال کا وہ جواب نہ دے سکے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس نبی کا سب بھرم کھل جائے گا۔ وہ جواب تو نہ دے سکے گا یا پھر مہلت مانگے گا اور دریں اثنا وہ ادھر ادھر کی کچھ معلومات مہیا کرے گا جس کا علم ہوجانا بعید از قیاس نہیں۔ یہود یہ تو جانتے تھے کہ یہ نبی امی ہے لہٰذا انہوں نے سوچ سمجھ کر ایک تاریخی قسم کا سوال کفار مکہ کو بتایا جو یہ تھا کہ ”سیدنا ابراہیم علیہ السلام ، سیدنا اسحاق علیہ السلام اور سیدنا یعقوب (اسرائیل) سب کا مسکن تو شام و فلسطین کا علاقہ تھا۔ پھر بنی اسرائیل مصر میں کیسے جا پہنچے جنہیں اہل مصر کی غلامی سے آزاد کرانے کے لیے سیدنا موسیٰ علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے؟‘‘ جب کفار مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا تو اسی وقت یہ سورۃ پوری کی پوری نازل ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے مسلسل یہ سورۃ ادا ہوتی گئی اور حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کے جواب سے اس وقت نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واقف تھے اور نہ اہل مکہ اور اس جواب میں سیدنا یوسف علیہ السلام کے حالات زندگی کی پوری داستان بھی آگئی اور کئی ایسی باتوں کی طرف واضح اشارات بھی پائے جاتے تھے جو کفار مکہ اور برادران یوسف کے درمیان مشترک پائے جانے والے تھے اور اس میں کفار مکہ کے لیے عبرت کے کئی نشان بھی تھے۔ گویا یہ پوری سورۃ قریش مکہ کے حق میں ایک طرح کی پیشین گوئی کی حیثیت رکھتی تھی اور وہ سب نشان عبرت پورے ہو کر رہے۔ مثلاً: اس سورۃ کا شان نزول اور آپ کی نبوت کا ثبوت :۔ پہلی عبرت کی بات یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ان کے سوال کا جواب دے کر یہ ثابت کردیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فی الواقع اللہ کے نبی ہیں کیونکہ وحی الٰہی کے علاوہ آپ کے پاس معلومات کا کوئی ذریعہ ممکن نہ تھا، لیکن پھر بھی یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لائے اور اپنی ہٹ پر قائم رہے۔ دوسرے یہ کہ جس طرح برادران یوسف نے اپنے بھائی کو قتل کرنے یا جلا وطن کرنے کا ارادہ اس لیے کیا کہ کھٹکتے خار کو راستہ سے ہٹا کر اپنی راہ صاف کی جائے۔ بعینہ اسی غرض کے تحت کفار مکہ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے یا جلا وطن کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ قصہ یوسف اور قریش میں مماثلت کی وجوہ :۔ تیسرے یہ کہ جو تدابیر برادران یوسف نے یوسف علیہ السلام کو اپنی راہ سے ہٹانے کے لیے اختیار کی تھیں۔ انہی تدابیر کو اللہ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کے عروج اور سربلندی کا ذریعہ بنا دیا۔ اسی طرح بعینہ جو تدابیر کفار مکہ نے پیغمبر اسلام اور اسلام کو نیست و نابود کرنے کے لیے اختیار کی تھیں۔ انہی سے اسلام کا عروج اور سربلندی حاصل ہوئی اور یہی تدابیر کفار مکہ اور کفر کی موت کا سبب بن گئیں۔ چوتھے یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو حکومت عطا فرمائی اور ان کے بھائی نادم و شرمسار ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے انھیں ﴿لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ﴾ کہہ کر معاف فرما دیا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد اپنے ان جانی دشمن بھائیوں کو بالکل یہی الفاظ کہہ کر معاف کردیا۔ مزید یہ کہ انھیں جنگی قیدی بنانے کے بجائے ﴿اَنْتُمُ الطُّلَقَاء ُ﴾ کہہ کر انھیں یہ محسوس تک نہ ہونے دیا کہ وہ مغلوب و مفتوح قوم ہیں۔ اور اس تفصیل سے جو نہایت اہم سبق حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جس شخص کو اللہ سربلند کرنا چاہے اس کے حاسد اور مخالف اسے مٹانے کی لاکھ کوششیں کریں، کارگر نہیں ہوسکتیں۔ بلکہ بمصداق ”عدوشرے برانگیزد کہ خیر مادراں باشد“ اللہ انھیں تدبیروں کا رخ یوں پھیر دیتا ہے کہ وہی تدبیریں اس شخص کی سربلندی کا ذریعہ بن جایا کرتی ہیں۔