يَقْدُمُ قَوْمَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَوْرَدَهُمُ النَّارَ ۖ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُودُ
وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے چلے گا (٨١) اور انہیں جہنم رسید کردے گا، اور وہ بہت ہی بری جگہ ہوگی، جہاں وہ لوگ پہنچا دیئے جائیں گے۔
[١١٠] دنیوی اعمال کے اخروی نتائج میں مماثلت :۔ اس مقام پر قصہ موسیٰ علیہ السلام و فرعون کی سب تفصیلات چھوڑ دی گئی ہیں نہ ہی یہ ذکر ہے کہ اس دنیا میں فرعون اور اس کے درباریوں اور پیروکاروں کا کیا انجام ہوا بلکہ ان لوگوں کا قیامت کے دن جو حال ہوگا اس کا نقشہ پیش کیا گیا ہے اور بتلایا گیا ہے کہ جس طرح اس دنیا میں فرعون اپنے پیروکاروں کا لیڈر بنا ہوا ہے اسی طرح قیامت کے دن بھی اپنے پیروکاروں کی قیادت کر رہا ہوگا لیکن آج تو فرعون کے پیروکاروں کو یہ نظر نہیں آرہا کہ فرعون انھیں اس ہلاکت کے گڑھے کی طرف لیے جارہا ہے لیکن قیامت کو ان سب کو یہ نظر آرہا ہوگا کہ وہ انھیں جہنم کی طرف لیے جارہا ہے لیکن اس وقت وہ اس کی پیروی کرنے پر مجبور ہوں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیوی اعمال کی ان کے اخروی نتائج کے ساتھ غایت درجہ کی مماثلت ہوگی اور انسان اس دنیا میں تو کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے مگر ان کاموں کے نتائج اس کے اختیار میں نہیں ہوتے بلکہ وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہوتے ہیں لہٰذا اس دن وہ اس کے پیچھے پیچھے چلنے پر مجبور ہوں گے۔ پھر قیامت کے دن ایسی قیادت صرف فرعون سے ہی مختص نہ ہوگی بلکہ ہر قائد کا الگ الگ جھنڈا ہوگا اور وہ اپنے پیروکاروں کے آگے آگے چل کر انھیں ان کی منزل تک لے جائے گا اگر کوئی قائد دنیا میں اللہ کا فرمانبردار اور نیک بخت تھا تو وہ اپنے پیروکاروں کو لیے ہوئے جنت کی طرف روانہ ہوگا اور بدکردار لیڈر اپنے پیروکاروں کو جہنم کی طرف لے جارہے ہوں گے۔ [ ١١١] ورد کے لغوی معنی :۔ وَرَدَ کے معنی ہیں پانی پینے کے لیے پانی کے مقام یا گھاٹ پر پہنچنا اور اس کی ضد صَدَرَ ہے یعنی پانی پی کر اور سیراب ہو کر پانی کے مقام سے واپس جانا اور ورد گھاٹ کو بھی کہتے ہیں۔ یعنی فرعون اپنے پیروکاروں سمیت نکلا تو ہوگا پانی کی تلاش میں مگر یہ لوگ جا پہنچیں گے جہنم کے کنارے پر۔ یعنی دنیا میں بھی یہ موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کا انکار کرکے اپنی بھلائی چاہ رہے تھے اور ان کی یہ غلط سوچ دنیا میں بھی ان کی ہلاکت کا سبب بن گئی تھی اور آخرت میں بھی ان کی سوچ کچھ اور ہوگی اور نتیجہ ہلاکت ہوگا۔