قَالَ لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَىٰ رُكْنٍ شَدِيدٍ
لوط نے کہا کاش مجھے تمہیں سیدھا کرنے کے لیے طاقت (٦٦) ہوتی، یا تم سے نمٹنے کے لیے کوئی مضبوط سہارا مل جاتا۔
[٩٠] سیدنا لوط علیہ السلام کی بے بسی :۔ سیدنا لوط علیہ السلام اس علاقہ سدوم میں غریب الدیار تھے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔ پہلے عراق سے ہجرت کرکے فلسطین آئے پھر جب انھیں نبوت عطا ہوئی تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے انھیں بغرض تبلیغ سدوم بھیج دیا۔ یہاں ان کا کوئی کنبہ قبیلہ بھی نہ تھا۔ بیوی بھی کافر تھی اور اسی قوم کی فرد تھی اور ان لواطت کرنے والے مشٹنڈوں سے ساز باز رکھتی تھی اور جب کوئی مہمان گھر پر آتا تو انھیں خفیہ طور پر یا اشاروں سے مطلع کردیا کرتی تھی ان فرشتوں کی آمد کی بھی اسی نے ان لوگوں کو اطلاع دی تھی۔ یہ تھا سیدنا لوط علیہ السلام کی بے بسی کا عالم کہ گھر میں بیوی بھی ان کی مخالف تھی۔ اسی بے بسی کے عالم میں ان مشٹنڈوں کے بارے میں آپ کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے ’’کاش میں تمہارا مقابلہ کرسکتا یا کسی مضبوط سہارے کی طرف پناہ لے سکتا‘‘ یعنی اگر میرا بھی یہاں مضبوط قبیلہ یا برادری ہوتی تو شاید میں ایسا بے بس اور مجبور نہ ہوتا۔ مفسرین کہتے ہیں کہ سیدنا لوط علیہ السلام کے بعد جتنے بھی انبیاء مبعوث ہوئے سب بڑے جتھے اور قبیلے والے تھے۔