فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ الرَّوْعُ وَجَاءَتْهُ الْبُشْرَىٰ يُجَادِلُنَا فِي قَوْمِ لُوطٍ
پس جب ابراہیم کے دل سے ڈر (٦١) نکل گیا، اور انہیں خوشخبری مل گئی تو وہ قوم لوط کے بارے میں ہم سے جھگڑنے لگے۔
[٨٥] سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قوم لوط پر عذاب کے بارے میں بحث :۔ اس آیت میں ’’ہم سے‘‘ سے مراد ’’ہمارے فرشتوں سے‘‘ ہے یعنی جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا خوف خوشی میں تبدیل ہوگیا تو وہ ہمارے فرشتوں سے یہ بحث کرنے لگے کہ وہاں تو لوط علیہ السلام خود بھی موجود ہیں۔ پھر تم اس بستی کو کیسے ہلاک کرو گے اور فلاں مومن بھی موجود ہے اور فلاں بھی جس سے آپ کا مقصد صرف یہ تھا کہ اگر عذاب کو موخر کردیا جائے تو شاید لوگ ایمان لے آئیں اور انھیں کچھ مزید مہلت مل جائے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نرم دل واقع ہوئے تھے اور وہ چاہتے یہ تھے کہ کسی طرح اللہ کی یہ مخلوق عذاب الٰہی سے بچ جائے۔