تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَٰذَا ۖ فَاصْبِرْ ۖ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ
یہ غیب کی خبروں میں سے ہے، جو ہم آپ کو بذریعہ وحی (٣٧) بتا رہے ہیں آپ اور آپ کی قوم اس سے پہلے ان خبروں کو نہیں جانتی تھی، پس آپ (دعوت الی اللہ کی راہ میں) صبر سے کام لیجیے، آخر کار اچھا انجام متقیوں کے لیے ہے۔
[٥٤] نوح علیہ السلام کا زمانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً چار ہزار سال پیشتر کا ہے اس دور کے مستند اور صحیح ترین حالات کی اطلاع دینا اللہ ہی کا کام ہوسکتا ہے۔ اہل مکہ ان حالات سے مطلقاً بے خبر تھے گویا یہ نوح علیہ السلام کا قصہ اس تفصیل سے بتا دینا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل ہے۔ [٥٥] یعنی بالآخر اچھا انجام اللہ سے ڈرنے والوں کا ہی ہوتا ہے جیسا کہ نوح علیہ السلام کے ساتھیوں کا ہوا بلکہ ہر حق و باطل کے معرکہ میں، خواہ اس کا تعلق انبیاء سے ہو یا نہ ہو۔ بالآخر غلبہ حق کو ہی حاصل ہوتا ہے اور حق پرست ہی انجام کے لحاظ سے بہتر رہتے ہیں اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ اخروی زندگی میں بہرحال اللہ سے ڈرنے والوں کا ہی انجام بخیر ہوگا اور یہ دونوں مطلب درست ہیں گویا اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خوش خبری بھی دی گئی ہے۔