وَقِيلَ يَا أَرْضُ ابْلَعِي مَاءَكِ وَيَا سَمَاءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْمَاءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِيِّ ۖ وَقِيلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
اور کہا گیا کہ اے زمین ! تو اپنا پانی پی جا (٣٢) اور اے آسمان ! تو بارش برسانا بند کردے، اور پانی خشک ہوگیا، اور اللہ کا حکم پورا ہوچکا، اور کشتی جودی پہاڑ پر رک گئی، اور کہہ دیا گیا کہ ظالموں کے لیے اللہ کی رحمت سے دوری لکھ دی گئی۔
[٥٠] طوفان کا خاتمہ :۔ چھ ماہ تک پانی کی سطح بلند ہوتی رہی پہاڑ تک اس میں ڈوب گئے مجرمین اپنے انجام کو پہنچ گئے اور ان میں سے کوئی بھی اس عذاب سے بچ نہ سکا تو اللہ نے زمین کو حکم دیا کہ اپنا پانی پھر سے اپنے اندر جذب کرلے اور اللہ کے حکم سے بارش بھی رک گئی۔ کچھ پانی ہواؤں نے خشک کیا اور کشتی جودی پہاڑ پر جاکر ٹک گئی۔ یہ پہاڑ عراق میں موصل شہر سے کچھ فاصلے پر واقع ہے اور آج بھی اسی نام سے مشہور ہے۔ سیلاب دنیا کے کتنے حصے میں آیا :۔ طوفان نوح کے متعلق دو باتیں ہنوز قابل تحقیق ہیں ایک یہ کہ آیا یہ طوفان تمام روئے زمین پر آیا تھا یا صرف قوم نوح علیہ السلام کے علاقہ میں آیا تھا۔ اکثر مورخین کا خیال ہے کہ یہ تمام روئے زمین پر آیا تھا اور اس کی دلیل یہ پیش کی جاسکتی ہے کہ دنیا کی سب اقوام کی قدیم تاریخ میں طوفان نوح کا ذکر موجود ہے لیکن قرآن اس بارے میں خاموش ہے اور عقلی لحاظ سے یہی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ طوفان صرف اس علاقہ میں ہی آیا ہو جہاں کے مجرموں کو سزا دینا مقصود تھا اور جہاں عذاب الٰہی کے لئے اتمام حجت ہوچکی تھی اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس دور میں زمین کا صرف یہی خطہ آباد ہو۔ رہا سب اقوام کی قدیم تاریخ میں طوفان نوح علیہ اسللام کے ذکر کا مسئلہ تو یہ دونوں صورتوں میں ممکن ہے۔ کیا نوح کے آدم ثانی ہونے کا نظریہ درست ہے؟:۔ اور دوسری قابل تحقیق بات یہ ہے کہ طوفان نوح کے بعد نسل انسانی صرف نوح علیہ السلام کی اولاد سے ہی پھیلی تھی یا یہ ان تمام لوگوں کی اولاد سے ہے جو کشتی میں سوار تھے؟ عام مورخین کا خیال ہے کہ اس طوفان کے بعد صرف نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں حام، سام، یافث سے ہی پھیلی ہے اور اس خیال کی تائید قرآن کریم کی اس آیت سے بھی ہوجاتی ہے۔ ﴿ وَجَعَلْنَا ذُرِّیَّتَہٗ ہُمُ الْبٰقِیْنَ ﴾(۷۷:۳۷) اور ہم نے دنیا میں نوح کی اولاد کو ہی باقی رکھا) اسی لحاظ سے نوح علیہ السلام کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن قرآن کریم کی ہی دو آیات ایسی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ طوفان نوح کے بعد نسل انسانی ان تمام لوگوں کی اولاد سے چلی جو اس کشتی میں سوار تھے مثلاً (١) ﴿ ذُرِّیَّــۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ﴾ تم ان لوگوں کی اولاد ہو جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کرلیا تھا۔ اور (٢) ﴿مِنْ ذُرِّیَّۃِ اٰدَمَ ۤ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ﴾ (۵۸:۱۹) آدم کی اولاد سے اور ان لوگوں کی اولاد سے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کرلیا تھا۔ اس دوسری آیت سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ طوفان نوح پوری دنیا پر نہیں آیا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب زیادہ قرین قیاس بات یہی ہے کہ اس طوفان کے بعد نسل انسانی ان تمام لوگوں سے چلی جو کشتی میں سوار تھے۔