حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور تنور ابل پڑا، تو ہم نے کہا کہ آپ کشتی میں ہر جانور کا ایک ایک جوڑا (نر اور مادہ) ڈال لیجیے (٢٨) اور اپنے گھر والوں کو، سوائے ان کے جن کے ڈبو دیئے جانے کا فیصلہ ہوچکا ہے، اور مومنو کو سوار کرلیجیے، اور بہت تھوڑے لوگ ان پر ایمان لائے تھے۔
[٤٦] طوفان نوح کا آغاز :۔ طوفان نوح کا آعاز تنور سے چشمہ پھوٹنے سے ہوا۔ ایک قول کے مطابق تنور سے مراد و ہی معروف تنور ہے جس میں روٹیاں پکائی جاتی ہیں اور ایک قول کے مطابق تنور سے مراد سطح زمین ہے۔ پھر ارد گرد کی زمین سے کئی مزید چشمے پھوٹنے شروع ہوگئے اور اوپر سے لگاتار بارش شروع ہوگئی۔ پہلا چشمہ پھوٹنے پر نوح علیہ السلام کو حکم دے دیا گیا کہ سب ایمان والوں کو اس کشتی میں سوار کرلو اور جو جانور بھی اس وقت روئے زمین پر موجود ہیں اور نر و مادہ سے پیدا ہوتے ہیں ان کا ایک ایک جوڑا (یعنی نر و مادہ) بھی اس کشتی میں رکھ لو۔ اپنے گھر والوں میں سے جو مومن ہیں ان سب کو بھی سوار کرلو اور وہ حام، سام، یافث اور ان کے اہل و عیال تھے اور جو ایمان نہیں لائے انھیں اس کشتی میں مت سوار کرنا اور ان میں نوح علیہ السلام کا بیٹا یام بھی تھا جسے کنعان بھی کہا جاتا تھا اور نوح علیہ السلام کی بیوی واعلہ جو کافر تھی اور کنعان کی والدہ تھی۔ آپ کے خاندان سے یہ دو افراد بھی طوفان کی نذر ہوئے تھے اور ایمان لانے والے بہت تھوڑے لوگ ہی تھے جن کی تعداد ٨٠ سے متجاوز نہیں تھی۔