وَأُوحِيَ إِلَىٰ نُوحٍ أَنَّهُ لَن يُؤْمِنَ مِن قَوْمِكَ إِلَّا مَن قَدْ آمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ
اور نوح کو میری طرف سے وحی بھیجی گئی کہ اب آپ کی قوم کا کوئی آدمی ایمان (٢٥) نہیں لائے گا، سوائے ان کے جو ایمان لاچکے ہیں، تو آپ ان کے کرتوتوں پر افسوس نہ کیجیے۔
[٤٣] عذاب صرف گندے عنصر پر آتا ہے :۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کی دعوت اور قوم کے انکار کے نتیجہ میں عذاب اس وقت تک نہیں آتا جب تک اس میں کچھ بھلے آدمیوں کے نکل آنے کا امکان باقی ہو اور جب ایمان لانے والے ایمان لاچکتے ہیں اور باقی صرف گندہ عنصر ہی رہ جاتا ہے تو یہی عین عذاب کا وقت ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کو سورۃ نوح میں سیدنا نوح علیہ السلام نے خود بھی دعا کرتے وقت کہا تھا کہ ’’یا اللہ اب اس قوم کو غارت کردے کیونکہ اب ان لوگوں میں کسی کے ایمان لانے کی توقع نہیں رہی بلکہ جو اولاد یہ جنیں گے وہ بھی فاسق و فاجر ہی پیدا ہوگی لہٰذا ان میں سے ایک گھرانہ بھی زندہ نہ چھوڑ‘‘ (٧١: ٢٦، ٢٧)