أَفَمَن كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِن قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً ۚ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ ۚ فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۚ إِنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ
کیا جس شخص کو اس کے رب کی جانب سے قرآن جیسی کھلی نشانی ملی ہو، اور اس کے بعد اس کی جانب سے ایک گواہ بھی آیا ہو (یعنی جبریل) اور اس کے قبل موسیٰ کی کتاب رہنما اور رحمت بن کر آچکی ہو (کیا ایسا آدمی گمراہ ہوسکتا ہے؟) ایسے ہی لوگ قرآن پر ایمان رکھتے ہیں، اور قوموں اور جماعتوں میں سے جو بھی اس قرآن کا انکار کرے گا اس سے جہنم کا وعدہ ہے، تو آپ قرآن کے بارے میں کسی شک (١٥) میں نہ پڑیں، وہ یقینا آپ کے رب کی برحق کتاب ہے، لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے ہیں۔
[٢٠] دونوں شہادتوں کے بعد بھی ایمان نہ لانے والے :۔ یہاں واضح دلیل سے مراد داعیہ فطرت یا عہد الست ہے جو ہر انسان کے تحت الشعور میں موجود ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے الاعراف کی آیت نمبر ١٧٢، ١٧٣) اب اگر اس آیت میں شخص سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات لی جائے تو شاہد سے مراد جبرئیل علیہ السلام ہیں اور اگر شخص سے مراد عام آدمی لیا جائے تو شاہد سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یعنی یہ داعیہ فطرت ہر انسان کے تحت الشعور میں پہلے سے ہی موجود ہے کہ اس کائنات کا اور خود ہمارا بھی خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہوسکتا پھر اس داعیہ کی تائید میں خارج سے دو قوی شاہد بھی مل جائیں جن میں سے ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن ہے اور دوسرے تورات جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدتوں پہلے نازل ہوئی تھی تو کیا ایسے شخص کے ایمان لانے میں کوئی چیز آڑے آسکتی ہے اسے فوراً اس داعیہ فطرت پر لبیک کہتے ہوئے ایمان لے آنا چاہیے اور جو پھر بھی ایمان نہیں لاتا اس کا علاج دوزخ کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے خواہ وہ شخص کسی بھی مذہب اور فرقہ سے تعلق رکھتا ہو؟ [١ ٢] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ خطاب صرف بطور تاکید مزید ہے اصل میں اس کے مخاطب عام لوگ ہیں جیسا کہ اس کی تفصیل پہلے بیان کی جاچکی ہے۔