سورة ھود - آیت 10

وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ نَعْمَاءَ بَعْدَ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ ذَهَبَ السَّيِّئَاتُ عَنِّي ۚ إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اگر ہم تنگی رزق کے بعد جو اسے لاحق ہوجاتی ہے، وسعت رزق اور آسائش دیتے ہیں، تو کہنے لگتا ہے کہ اب میری تکلیفوں کا زمانہ ختم ہوگیا، بیشک وہ بڑا اترانے والا، اپنی تعریف کرنے والا بن جاتا ہے،

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٣] انسان کی تنگ ظرفی اور ناشکری :۔ اس آیت اور اس سے پہلی آیت میں ایک دنیا دار اور خدا فراموش انسان کی کم حوصلگی اور تنگ ظرفی کا نقشہ پیش کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ اگر زندگی بھر اللہ کی نعمتیں میسر آتی رہیں پھر کسی وقت کوئی مصیبت آجائے تو اسی وقت مصیبت کا رونا رونے لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے متعلق سخت سست الفاظ کہنے لگتا ہے اور یہ بھول ہی جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کتنی مدت آسودہ حال بھی رکھا تھا جس کا اس نے شکر بھی کبھی ادا نہیں کیا تھا اور اگر ہم اسے مصیبت سے نجات دے دیں تو پھر بھی اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا بلکہ اس وقت بھی اللہ سے غافل اور مغرور ہو کر شیخیاں بگھارنے لگتا ہے اور پھولے نہیں سماتا جیسے پھر اسے کوئی مصیبت آئے گی ہی نہیں۔ حالانکہ اسے چاہیے تھا کہ پچھلی حالت کو فراموش نہ کرتا اور اللہ کا شکر ادا کرتا اور اس کے احسانات کے سامنے جھک جاتا۔