سورة ھود - آیت 6

وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور زمین پر جو جانور بھی پایا جاتا ہے، اس کی روزی (٦) اللہ کے ذمے ہے، وہ ہر ایک کے دنیاوی (عارضی) اور اخروی (دائمی) ٹھکانوں کو جانتا ہے، ہر بات کھلی کتاب (لوح محفوظ) میں لکھی ہوئی ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨] اللہ کی رزاقیت :۔ یعنی صرف انسانوں کا نہیں بلکہ زمین پر چلنے والے جانوروں حتیٰ کہ کیڑے مکوڑوں اور چیونٹیوں کا رزق بھی اللہ کے ذمے ہے اور یہ اللہ کی ذمہ داری ہے کہ ہر جاندار کو رزق اسے اس کے مقام پر پہنچائے۔ اس آیت سے جہاں اللہ کی کمال رزاقیت کا اندازہ ہوتا ہے وہاں اس کے وسعت علم کا بھی اندازہ ہوتا ہے اللہ کے رزق کی فراہمی کا ذریعہ یہ ہے کہ وہ آسمان سے بارش برساتا ہے جس سے زمین میں سے ہر طرح کی نباتات اگتی ہیں۔ پھر اسی نباتات، فصلوں اور پھلوں وغیرہ سے ہر جاندار کو بالواسطہ یا بلاواسطہ روزی مہیا ہوتی ہے اور ہر جاندار کی جملہ ضروریات زندگی اسی زمین سے مہیا ہو رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ جتنی بھی مخلوق پیدا فرماتا ہے تو اس کے مطابق زمین بھی اپنے نئے سے نئے خزانے اگلتی جارہی ہے اور آئندہ بھی اگلتی چلی جائے گی۔ لیکن اس رزق کے حصول کے لیے اس نے اسباب و وسائل اختیار کرنے کا بھی حکم دے دیا ہے اور جب کوئی انسان یا جاندار اسباب اختیار کرنے سے عاجز ہو تو اللہ تعالیٰ خود ہی اسباب بھی مہیا فرما دیتا ہے۔ محکمہ خاندانی منصوبہ بندی کی ناکامی اور قحط کے اسباب :۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر رزق کی فراہمی اللہ کے ذمے ہے تو قحط سے یا بعض دوسری وجوہ سے انسان ہزاروں کی تعداد میں مر کیوں جاتے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قحط تو اللہ کا عذاب ہے جو لوگوں کی نافرمانیوں کی وجہ سے انسانوں پر مسلط کیا جاتا ہے اور دوسری وجوہ بعض انسانوں کی دوسروں پر ظلم و زیادتی اور معاشی وسائل کی ناہموار تقسیم کی بنا پر ایسے حادثات وجود میں آتے ہیں اور یہ سب کچھ انسانوں کے کسب اعمال کا ہی نتیجہ ہوتا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جانداروں کے رزق میں کمی یا کوتاہی کا تصور بھی ممکن نہیں۔ ماہرین معاشیات کی کوتاہ بینی :۔ آج عالمی سطح پر یہ ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے کہ آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور وسائل رزق اس کا ساتھ نہیں دے رہے لہٰذا خاندانی منصوبہ بندی اور اولاد پر کنٹرول ضروری ہے اس سلسلہ میں آج کے ماہر معاشیات کی کوتاہ فہمی اور فطرت سے جنگ کے نتیجہ میں ان کی ناکامی کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ جہاں جہاں ایسے محکمے قائم کیے جارہے ہیں شرح پیدائش نسبتاً بڑھتی جارہی ہے اور عجیب اتفاق ہے کہ لوگ بھی پہلے سے زیادہ آسودہ اور خوشحال ہیں جس کا اندازہ ہر شخص اپنی پچاس سال پہلے کی زندگی سے کرسکتا ہے ان مادہ پرست ماہرین کے فکر کی اصل وجہ محض اللہ تعالیٰ کی رزاقیت پر عدم توکل ہے ورنہ اللہ تعالیٰ تو آبادی کی افزائش کے ساتھ ساتھ زمین کے خزانوں میں اضافہ فرما رہا ہے صدیوں سے بنجر پڑی ہوئی زمینیں آباد ہو رہی ہیں زمین سال میں دو کی بجائے چار چار فصلیں دینے لگی ہے کہیں تیل دریافت ہو رہا ہے کہیں جلانے کی گیسیں اور کہیں دوسری معدنیات نیز انسان حصول رزق کے نئے سے نئے وسائل بھی دریافت کر رہا ہے اور سب باتیں اس آیت کا جیتا جاگتا مصداق ہیں۔ مادہ پرست ماہرین معاشیات یہ تو اندازہ کرلیتے ہیں کہ اتنے سال بعد موجودہ شرح پیدائش کے مطابق دنیا کی آبادی اتنی ہوجائے گی لیکن اس دوران اللہ تعالیٰ جو نئے نئے وسائل رزق مہیا کرتا ہے اس کا وہ کچھ اندازہ نہیں کرسکتے لہٰذا ان کے اکثر اندازے غلط ثابت ہوتے ہیں اس مادہ پرستی اور محض مادی وسائل پر نظر رکھنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اللہ پر توکل اٹھ جاتا ہے جو اس آیت کا مقصود اصلی ہے۔ اللہ پر توکل کی فضیلت :۔ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر تم اللہ پر ایسا توکل کرتے جیسا کرنے کا حق ہے تو تم کو بھی اسی طرح رزق دیا جاتا جس طرح پرندوں کو دیا جاتا ہے وہ صبح کو بھوکے جاتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں‘‘ (ترمذی، ابو اب الزہد۔ باب ماجاء فی قلۃ الطعام) [٩] قرآن کے الفاظ ہیں مستقر (قرار گاہ) اور مستودع (سونپے جانے کی جگہ) اور مستودع اس گودام کو بھی کہتے ہیں جہاں کوئی چیز ذخیرہ کی جاتی ہے یا امانتیں بطور حفاظت رکھی جاتی ہیں ان دونوں الفاظ کی تعبیر میں مفسرین کا خاصا اختلاف ہے ان میں سے ہم ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کو اختیار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک مستقر سے مراد وہ جگہ ہے جہاں کسی نے اس دنیا میں زندگی (کا اکثر حصہ) بسر کیا ہو اور مستودع سے مراد وہ جگہ ہے جہاں وہ دفن ہوا اور ہر جاندار کے ان دونوں مقامات کا اللہ کو پوری طرح علم ہے۔ [١٠] لوح محفوظ ہی کتاب مبین ہے :۔ کتاب مبین سے مراد لوح محفوظ ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ عمران بن حصین کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’: اللہ تھا اور اس سے پہلے کوئی چیز نہ تھی اس کا عرش پانی پر تھا پھر اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور لوح محفوظ میں ہر چیز لکھی‘‘ (بخاری، کتاب التوحید۔ باب قولہ وکان عرشہ علی الماء)