سورة ھود - آیت 3

وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُم مَّتَاعًا حَسَنًا إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ ۖ وَإِن تَوَلَّوْا فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور یہ کہ تم اپنے رب سے مغفرت (٣) طلب کرو، پھر اس کی جناب میں توبہ کرو، وہ تمہیں ایک محدود وقت (یعنی موت) تک عمدہ عیش و آرام کا فائدہ اٹھانے دے گا، اور ہر زیادہ کار خیر کرنے والے کو اس کا اجر و ثواب دے گا، اور اگر تم لوگ راہ حق سے منہ پھیر لو گے تو میں تمہارے بارے میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣] توبہ واستغفار کے فائدے :۔ اس آیت میں توبہ و استغفار کی کمال فضیلت بیان ہوئی ہے توبہ و استغفار سے اصل مطلوب تو اپنے گناہوں کی بخشش ہے اگر خلوص نیت سے توبہ کی جائے تو اللہ تعالیٰ یقیناً گناہ معاف فرما دینے والا ہے۔ مزید فائدہ یہ ہے کہ جب تک توبہ و استغفار کرنے والا زندہ رہے گا اللہ اسے متاع حسن سے نوازے گا۔ متاع حسن سے مراد پاکیزہ اور حلال رزق، اس رزق میں برکت اور قلبی اطمینان اور سکھ چین کی زندگی ہے اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا کہ اللہ اس قوم پر عذاب نازل نہیں کرتا جس میں توبہ و استغفار کرنے والے لوگ موجود ہوں (٨: ٣٣) نیز استغفار سے ایسے ہی مصائب اور بلائیں دور ہوتی ہیں جیسے صدقہ سے ہوتی ہیں جیسا کہ بہت سی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ متاع حسن اور متاع غرور :۔ متاع حسن کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے متاع الغرور کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ یعنی کافروں کو جو متاع زیست دیا جاتا ہے خواہ وہ مومنوں کے سامان زیست سے زیادہ ہی ہو اور بسا اوقات ہوتا بھی ایسے ہی ہے تو وہ سامان زیست انھیں دھوکہ اور فریب میں مبتلا کیے رکھتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ بہترین زندگی گزر رہی ہے اور اللہ ان پر مہربان ہے حالانکہ حلال و حرام کی تمیز کے بغیر وہی کمایا ہوا مال و دولت بسا اوقات اس دنیا میں بھی ان کے لیے وبال جان بن جاتا ہے اور آخرت میں تو یقینی طور پر بن جائے گا۔ [٤] یعنی اللہ تعالیٰ توبہ و استغفار کرنے اور نیک اعمال بجا لانے والوں کا بڑا قدر دان ہے کسی نے جتنے بھی نیک اعمال کیے ہوں گے اللہ تعالیٰ اسے اتنا ہی بلند درجہ عطا فرمائے گا واضح رہے کہ توبہ و استغفار کرتے رہنا بجائے خود بہت بڑا نیک عمل ہے۔ [٥] ہولناک دن کے عذاب سے ڈرنا تو ان لوگوں کو چاہیے جو دعوت حق سے منہ پھیرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ میں تم پر واقع ہونے والے عذاب سے ڈرتا ہوں تو یہ آپ کی اس کمال شفقت اور ہمدردی کی وجہ سے ہے جو آپ کو تمام لوگوں سے تھی۔