سورة البقرة - آیت 140

أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطَ كَانُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ۗ قُلْ أَأَنتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللَّهُ ۗ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهَادَةً عِندَهُ مِنَ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

کیا تم یہ کہتے (٢٠٣) ہو کہ ابراہیم، اسماعیل، اسحاق یعقوب اور اس کی اولاد، یہودی یا نصرانی تھے؟ آپ کہہ دیجئے کہ تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جس نے اللہ کی طرف سے، اس کے پاس موجود گواہی کو چھپا (٢٠٤) دیا، اور اللہ تمہارے کاموں سے غافل نہیں ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٧٢] یہود ونصاریٰ کااپنے انبیاء پر یہودی یاعیسائی ہونے کا الزام :۔اس آیت کا مفہوم سمجھنے کے لیے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ یہودیت اپنے موجودہ نظریات و عقائد کے مطابق تیسری اور چوتھی صدی قبل مسیح میں معرض وجود میں آئی تھی۔ اور عیسائیت اپنے مخصوص نظریات و عقائد کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے مابعد کی پیداوار ہے اور یہودیوں اور عیسائیوں کے عالم لوگ اس بات کو خوب جانتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اسماعیل علیہ السلام، اسحاق علیہ السلام، یعقوب علیہ السلام اور ان کی اولاد یعنی حضرت یوسف علیہ السلام وغیرہم۔ اس قسم کی یہودیت اور عیسائیت کی پیدائش سے بہت پہلے وفات پا چکے تھے، مگر ان علمائے یہود و نصاریٰ نے عوام کے ذہن میں یہ بات پختہ کردی تھی کہ یہ مندرجہ بالا انبیائے کرام یہود کے قول کے مطابق یہودی تھے اور نصاریٰ کے قول کے مطابق عیسائی تھے۔ اس پس منظر میں اب اس آیت کو ملاحظہ فرمائیے جس میں اللہ تعالیٰ نے علمائے یہود و نصاریٰ کی اس بددیانتی کو آشکار کیا ہے اور انہیں کتمان شہادت کے مجرم قرار دے کر سب سے بڑے ظالم ٹھہرایا ہے۔