سورة یونس - آیت 91

آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا اب ایمان لائے ہو، اس سے پہلے تک تو نافرمانی کرتے رہے اور فساد برپا کرنے والوں میں سے تھے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٠١] فرعون کا غرقابی کے وقت ایمان لانا :۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے اس اقرار کے جواب میں فرمایا کہ جیسا اقرار تم اب کر رہے ہو ویسا اقرار پہلے بھی کئی دفعہ کرچکے ہو پھر بعد میں عہد شکنی کرکے بغاوت ہی کرتے رہے ہو لہٰذا تمہارا اب کا یہ اقرار قطعاً ناقابل اعتبار ہے اگر تمہیں اب بھی ہم نجات دے دیں تو پھر بھی تم وہی کچھ کرو گے جو پہلے کرتے رہے ہو اور اس مطلب پر دلیل درج ذیل حدیث ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب فرعون نے یہ کلمات کہے تھے تو جبریل علیہ السلام نے مجھے کہا کہ : ’’کاش اے محمد! آپ دیکھتے میں نے اس وقت دریا سے کیچڑ لے کر فرعون کے منہ میں ٹھونس دیا کہ مبادا اب بھی کہیں اللہ کی رحمت اسے نہ آلے‘‘ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اب تمہارے اس اقرار کا کچھ فائدہ نہیں کیونکہ یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ تمہاری موت آچکی اور امتحان اور توبہ کا وقت گذر چکا ہے لہٰذا اب ایسا اقرار بے کار ہے اس مطلب پر بھی بے شمار آیات و احادیث شاہد ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تین امور کا معین وقت کسی کو بھی نہیں بتلایا، ایک یہ کہ کسی قوم پر عذاب کب آئے گا، دوسرے یہ کہ کسی کی موت کا وقت کب ہے؟ اور تیسرے یہ کہ قیامت کب آئے گی کیونکہ ان امور کا معین وقت بتلا دیا جائے تو دنیا کے دارالامتحان ہونے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے اور فرعون کے معاملہ میں تو دو باتیں اکٹھی ہوگئی تھیں۔ ایک عذاب دوسرے موت۔ لہٰذا اس وقت اس کا ایمان کیسے قبول ہوسکتا تھا ؟