وَقَالَ مُوسَىٰ رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُ زِينَةً وَأَمْوَالًا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَن سَبِيلِكَ ۖ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَىٰ أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ
اور موسیٰ نے کہا (٥٧) اے ہمارے رب ! تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیاوی زندگی کے اسباب زینت اور مال و دولت کیا اس لیے دیا ہے کہ وہ لوگوں کو تیری راہ سے برگشتہ کریں، اے اللہ ! تو ان کے مال و دولت کو نیست و نابود کردے اور ان کے دلوں کو سخت بنا دے تاکہ ایمان نہ لائیں، یہاں تک کہ دردناک عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔
[٩٨] جماعتی نظم ونسق کے ساتھ ساتھ دشمن کی طاقت کو کمزور بنانے کے لئے وسائل سوچنا اور اس کے لئے دعا بھی ضروری ہے :۔ کسی دشمن سے مقابلہ کے لیے دو گونہ اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے ایک یہ کہ اپنی جماعت کو مربوط منظم اور طاقتور بنایا جائے دوسرے یہ کہ جہاں تک ممکن ہو دشمن کی جماعت کو کمزور بنایا جائے اب موسیٰ علیہ السلام کی مٹھی بھر جماعت کے مقابلہ میں فرعون جیسا جابر اور خود سر بادشاہ تھا جو مال و دولت اور شان و شوکت کی فراوانی کے علاوہ جملہ اسباب و وسائل پر قابض بھی تھا اور انہی وجوہات کی بنا پر وہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کے کام میں سدراہ بنا ہوا تھا کیونکہ وہ خوب جانتا تھا کہ اگر موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کو فروغ حاصل ہوگیا تو اس کا اقتدار خطرہ میں پڑجائے گا لہٰذا وہ اس دعوت کو روکنے میں اپنا ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہا تھا اور ظاہر ہے کہ جو شخص دعوت حق کی مخالفت میں اس حد تک جا پہنچے اس کے خود ایمان لانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لہٰذا موسیٰ علیہ السلام نے اپنی مقدور بھر کوششوں کے ساتھ ساتھ اللہ سے یہ دعا بھی کی کہ چونکہ دعوت حق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ فرعون اور اس کے درباریوں کا شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ اور مال و دولت کی فراوانی ہے اور یہی چیزیں ایک دنیا دار کی نظر میں زندگی کی کامیابی کا منتہائے مقصود ہیں لہٰذا اے ہمارے پروردگار! ان لوگوں کے مال و دولت اور وسائل کو تباہ و برباد کر دے تاکہ یہ لوگ کم از کم دوسرے لوگوں کی راہ تو نہ روکیں، ان کے اپنے دل تو اس قابل ہی نہیں رہے کہ وہ ایمان لے آئیں الا یہ کہ کوئی سخت عذاب اپنے آپ پر نازل ہوتا دیکھ لیں۔