ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِم مُّوسَىٰ وَهَارُونَ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ بِآيَاتِنَا فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُّجْرِمِينَ
پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ (٥٣) اور ہارون کو فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس اپنی آیتوں کے ساتھ بھیجا تو انہوں نے کبر و غرور کی راہ اختیار کی اور وہ لوگ اہل جرائم تھے۔
[٨٩] سیدنا موسیٰ کے فرعون سے مطالبات اور اس کا جواب :۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کا قصہ پہلے سورۃ اعراف (آیت نمبر ١٠٣ تا ١٧١) میں پوری تفصیل سے گزر چکا ہے لہٰذا ان حواشی کو بھی مدنظر رکھا جائے جو پہلے پیش کیے جاچکے ہیں جب یہ دونوں پیغمبر، فرعون اور اس کے درباریوں کے ہاں پہنچے تو انھیں دو باتوں کی دعوت دی۔ ایک یہ کہ صرف ایک ہی سچے معبود پر ایمان لاؤ اور اسی کی عبادت کرو اور دوسرے یہ کہ بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے آزاد کرکے میرے ہمراہ روانہ کردو۔ ظاہر ہے کہ فرعون جیسے جابر اور خود خدائی کا دعویٰ کرنے والے حکمران کو یہ دعوت کسی طرح بھی راس نہ آسکتی تھی لہٰذا اس نے فوراً یہ مطالبہ پیش کردیا کہ تم فی الواقع اللہ کے پیغمبر ہو تو اپنی نبوت کی تصدیق کے طور پر کوئی نشانی پیش کرو۔ اس پر سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا زمین پر پھینک دیا جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک خوفناک اژدھا کی شکل اختیار کر گیا اور دوڑنے لگا جس سے فرعون اور اس کے سب درباری ڈر کر موسیٰ علیہ السلام کی طرف ملتجیانہ نظروں سے دیکھنے لگے۔ آپ نے اس اژدہا کو پکڑ لیا اور وہ پھر سے عصا بن گیا پھر سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے دوسری نشانی بھی دکھلائی۔ اپنا داہنا ہاتھ اپنی بغل میں رکھا پھر نکالا تو وہ چمک رہا تھا اور اس سے سفید رنگ کی روشنی پھوٹ رہی تھی۔ آپ نے پھر اسے اپنی بغل میں رکھا تو وہ اپنی اصل حالت پر آگیا۔ یہ دونوں نشانیاں اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی بے مثال جرأت دیکھ کر فرعون اور اس کے درباری دل میں ڈر گئے۔ انھیں یہ یقین ہوگیا کہ موسیٰ علیہ السلام اور اس کا بھائی دونوں اللہ کے سچے پیامبر ہیں اور وہ ان خطرات کو بھی بھانپ رہے تھے جو ان کو پیش آنے والے تھے لیکن وہ اپنی صورت حال کو رعایا سے چھپانا بھی چاہتے تھے۔ لہٰذا ان معجزات کو جادو قرار دے دیا اور موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر۔ اور اس سے ان کا مقصد صرف اپنی رعایا کو الو بنانا تھا اور انھیں یہ تاثر دینا تھا کہ جس طرح دوسرے جادوگر شعبدہ بازیاں دکھلاتے ہیں اسی طرح کے یہ بھی شعبدے ہیں لہٰذا ان سے ڈرنے یا گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔