ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِ رُسُلًا إِلَىٰ قَوْمِهِمْ فَجَاءُوهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا بِهِ مِن قَبْلُ ۚ كَذَٰلِكَ نَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْمُعْتَدِينَ
پھر ہم نے ان کے بعد بہت سے رسولوں (٥٢) کو ان کی قوموں کے پاس بھیجا، جو ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے، لیکن وہ ایسے نہیں تھے کہ جس چیز کو وہ پہلے جھٹلا چکے تھے اس پر ایمان لے آتے، ہم حد سے تجاوز کرنے والوں کے دلوں پر اسی طرح مہر لگا دیتے ہیں۔
[٨٨] مہر لگانے کا مفہوم :۔ سیدنا نوح علیہ السلام کے بعد ہود، صالح، ابراہیم، لوط اور شعیب علیہم السلام کو ہم نے ان کی قوموں کی طرف واضح نشانات دے کر بھیجا تھا۔ ان سب رسولوں سے وہی معاملہ پیش آیا جو سیدنا نوح علیہ السلام کو پیش آیا۔ یعنی جب ان لوگوں نے پہلی بار انکار کردیا تو بس پھر اسی پر ڈٹ گئے اور رسولوں کے ہزار بارسمجھانے کے باوجود بھی ان سے یہ نہ ہوسکا کہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرلیں جب لوگ اس حالت کو پہنچ جاتے ہیں تو اللہ ان کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کے دل اس قابل ہی نہیں رہے کہ وہ آئندہ ہدایت قبول کرسکیں اور مہر لگنے کی نسبت اللہ کی طرف محض اس حیثیت سے ہوتی ہے کہ اسباب کے مسبب یا نتائج اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ انسان اسباب کے اختیار کرنے میں پوری طرح مختار ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اس کی سزا و جزا اس کے اسباب اختیار کرنے پر ہی مترتب ہوتی ہے گویا مہر لگنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سزا ہے جو انھیں انکار و مخالفت کے جرم کی پاداش میں ملتی ہے۔