فَكَذَّبُوهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ فِي الْفُلْكِ وَجَعَلْنَاهُمْ خَلَائِفَ وَأَغْرَقْنَا الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنذَرِينَ
تو ان لوگوں نے انہیں جھٹلا دیا، پس ہم نے انہیں بچا لیا، اور ان لوگوں کو بھی جو ان کے ساتھ کشتی میں سوار تھے، اور انہیں زمین کا وارث بنا دیا، اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا انہیں ڈبو دیا تو آپ دیکھ لیجیے کہ ان لوگوں کا کیسا انجام ہوا جنہیں پہلے ڈرایا گیا تھا۔
[٨٦] اس موقعہ پر نوح علیہ السلام کے واقعات کو ذکر کرنے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا چاہتے ہیں کہ اگر آپ کی قوم آپ کو جھٹلا رہی ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔ سابقہ پیغمبر بھی ایسے ہی حالات سے دو چار ہوئے تھے اور انہوں نے صبر اور برداشت کا کمال مظاہرہ کیا تھا لہٰذا آپ کو صبر اور برداشت سے کام لینا چاہیے اور دوسرا مقصد جھٹلانے والوں کو متنبہ کرنا ہے کہ جن لوگوں نے ہمارے انبیاء کو جھٹلایا تھا ان کے انجام پر غور کرلو اور خوب سمجھ لو اگر تم اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے باز نہ آئے تو تمہارا بھی ایسا ہی انجام ہونے والا ہے۔ [٨٧] طوفان نوح کی کیفیت :۔ یعنی جھٹلانے والوں پر اللہ کا عذاب اس صورت میں آیا کہ نیچے زمین سے پانی کے چشمے جاری ہونے لگے اور اوپر سے موسلا دھار بارش ہونے لگی اور یہ عمل مفسرین کے قول کے مطابق چھ ماہ تک جاری رہا اور پانی سطح زمین سے اتنا بلند ہوا کہ پہاڑ تک اس میں غرق ہوگئے۔ مجرمین بھلا کیسے بچ سکتے تھے۔ بچے صرف وہی چند لوگ جو ایمان لائے تھے اور نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں سوار تھے چھ ماہ بعد بارشیں بھی ختم ہوگئیں اور زمین بھی پانی کو جذب کرنے لگی کچھ ہواؤں نے پانی کو خشک کیا کشتی تو جودی پہاڑ پر ٹک گئی تھی چالیس دن بعد جب زمین کی سطح خشک ہوگئی تو یہی مومن جو کشتی میں سوار تھے زمین پر اتر آئے اور کافروں کی زمینوں پر قابض ہوئے اور آئندہ نسل انہی سے چلی۔