وَلَوْ أَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِي الْأَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهِ ۗ وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ ۖ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور ہر وہ شخص جس نے دنیا میں شرک کیا ہوگا، اگر وہ زمین کی ہر چیز کا مالک ہوگا تو اسے دے کر اپنی جان چھڑانا (٤٢) چاہے گا، اور جب وہ عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے تو اپنی ندامت کو چھپائیں گے، اور ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا، اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
[٦٩] فدیہ میں سارے جہان کی مال ودولت :۔ یعنی آخرت میں صرف وہ اعمال صالحہ کام آئیں گے جو کسی نے اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہوئے اپنے لیے آگے بھیجے ہوں گے۔ اعمال کے سوا وہاں نہ مال و دولت کام آئے گا نہ قرابت اور نہ سفارش۔ آیت مذکورہ میں مال و دولت کا ذکر بفرض تسلیم ہے یعنی اگر کسی مجرم کے پاس آخرت کو دنیا بھر کے خزانے اور مال و دولت موجود ہوں تو وہ یہ سب کچھ دے دلا کر عذاب سے اپنی جان چھڑا لے مگر یہ بات وہاں ناممکن ہوگی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کم سے کم عذاب والے دوزخی سے فرمائیں گے اگر تیرے پاس دنیا ومافیہا کی دولت موجود ہو تو کیا اسے اپنے فدیہ میں دے دو گے؟‘‘ وہ کہے گا ’’ہاں۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’میں نے تو تجھ سے دنیا میں اس سے آسان تر بات طلب کی تھی اور کہا تھا کہ اس بات (یعنی توحید) پر قائم رہے گا تو میں تجھے جہنم میں داخل نہ کروں گا مگر تو شرک پر اڑا رہا‘‘ (مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ۔ باب الکفار) [٧٠] ندامت کو اس لیے چھپائیں گے کہ انہوں نے غلط راستہ لاعلمی یا جہالت کی بنا پر نہیں بلکہ ضد، ہٹ دھرمی اور تعصب کی بناء پر اختیار کیا تھا لیکن اس ندامت کو چھپانے میں بھی کامیاب نہ ہوسکیں گے۔