وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللَّهُ شَهِيدٌ عَلَىٰ مَا يَفْعَلُونَ
اور ہم یا تو آپ کو اس عذاب (٣٧) کا بعض حصہ دکھلائیں گے جس کا ان سے وعدہ کرتے ہیں، یا آپ کو اس سے پہلے ہی (دنیا سے) اٹھا لیں گے۔ بہرحال انہیں ہمارے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے، پھر اللہ ان کے اعمال کا گواہ ہے۔
[٦٢] کافروں پر عذاب کی پیشگوئی کیسے پوری ہوئی؟:۔ کافروں اور مشرکوں کے لیے سب سے بڑا دکھ اور عذاب اسلام کا غلبہ اور ان کی ذلت آمیز شکست ہی ہوسکتا تھا تو اس عذاب کا بہت بڑا حصہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہی آپ نے خود اور سب مسلمانوں اور کافروں نے دیکھ لیا اسلام بدستور آگے بڑھتا رہا اور ترقی کی منازل بڑی تیزی سے طے کرتا گیا اور غزوہ بدر سے لے کر غزوہ تبوک تک کافروں کو میدان جنگ میں بھی اور معاشرتی طور پر بھی شکست اور ذلت ہی نصیب ہوتی رہی۔ رہی سہی کسر اللہ تعالیٰ نے آپ کی وفات کے بعد نکال دی اور دور عثمانی تک ایک وقت ایسا آیا جب کہ قریب قریب ساری دنیا میں اسلام کا ڈنکا بجتا تھا اور کفر پوری طرح مغلوب و مقہور ہوچکا تھا۔ [٦٣] پھر کافروں سے عذاب کا وعدہ صرف دنیا کی زندگی پر ہی موقوف نہ تھا بلکہ آخرت میں عذاب کا وعدہ مستقل طور پر موجود تھا یہ نہیں ہوسکتا کہ اگر دنیا میں وہ عذاب سے دوچار ہوچکے تو آخرت میں چھوٹ جائیں گویا دنیا کی زندگی میں اگر کوئی کافر عذاب سے بچ بھی جائے تو اخروی عذاب تو بہرحال یقینی اور بڑا سخت ہے۔