أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
کیا یہ مشرکین کہتے ہیں کہ محمد نے اسے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے، آپ کہیے کہ پھر تم لوگ اس جیسی ایک سورت (٣٣) لے آؤ اور اللہ کے سوا جسے اپنی مدد کے لیے بلا سکتے ہو بلا لو، اگر تم سچے ہو۔
[٥٤] مشرکین مکہ کے اس اعتراض کے جواب میں قرآن نے متعدد مقامات پر چیلنج کیا ہے کہ اگر تمہارے خیال کے مطابق قرآن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ہی بنا لیا ہے تو تم بھی ہمت آزمائی کر دیکھو اور اس سلسلے میں اپنے مددگاروں کو بھی اپنے ساتھ ملا لو لیکن اپنی بھرپور کوششوں کے باوجود جب وہ ایسا کلام پیش کرنے سے قاصر رہے تو انہیں دوزخ کی وعید سنا دی گئی۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی اس اعجازی حیثیت سے تین باتیں از خود ثابت ہوجاتی ہیں (١) اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت، (٢) قرآن کے منزل من اللہ ہونے کا ثبوت اور (٣) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ثبوت۔ اب جو شخص پھر بھی ایمان نہ لائے اور اپنی ضد، ہٹ دھرمی یا تعصب میں پڑا رہے اس کی سزا جہنم کے سوا کیا ہوسکتی ہے؟ (تفصیل سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٣ حاشیہ نمبر ٢٧ میں ملاحظہ فرما لیجئے)