قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ
آپ پوچھیے (٢٧) کہ تمہیں آسمان اور زمین سے روزی کون پہنچاتا ہے یا کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے، اور کون زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور کون تمام امور کی دیکھ بھال کرتا ہے، وہ جواب میں یہی کہیں گے کہ اللہ، تو آپ کہیے کہ پھر تم لوگ شرک سے کیوں نہیں بچتے ہو۔
[٤٥] مشرکین مکہ ان سب باتوں کے قائل تھے جو اس آیت میں بیان کی گئی ہیں اور جن سے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت عامہ ثابت ہوتی ہے اور اس کے ہمہ گیر اختیار و اقتدار کا پتہ چلتا ہے چنانچہ ان کے اسی عقیدہ کو بنیاد بنا کر ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ جب تم یہ سب باتیں مانتے ہو کہ خالق کائنات، مالک الملک، رب مطلق اور علی الاطلاق متصرف صرف اللہ تعالیٰ ہے تو پھر ڈرنا بھی اس سے چاہیے اور عبادت بھی اسی کی کرنی چاہیے گویا توحید فی الربوبیت کی بنیاد پر شرک فی الالوہیت کی تردید پر دلیل پیش کی جارہی ہے۔