هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ ۙ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ
وہی ہے جو تمہیں خشکی اور سمندر میں چلاتا ہے، یہاں تک کہ جب تم کشتی (٢١) میں ہوتے ہو، اور وہ کشتیاں موافق ہواؤں کے سہارے انہیں لے کر چل رہی ہوتی ہیں اور وہ ان کی رفتار سے خوش ہوتے ہیں کہ اچانک ایک تیز ہوا ان کشتیوں کو آلیتی ہے ور ہر چہار جانب سے موج ان لوگوں کو اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے، اور انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ وہ مکمل طور پر پھنس گئے ہیں، تو وہ اللہ کو اس کے لیے مکمل طور پر بندگی کو خالص کرتے ہوئے پکارتے ہیں کہ اے اللہ ! اگر تو نے ہمیں اس مصیبت سے نجات دے دی تو ہم تیرے شکر گزار بندوں میں سے ہوجائیں گے۔
[٣٤] جب موت سامنے کھڑی نظر آئے تو صرف اللہ کو پکارنا :۔ اس آیت میں ایک بہت بڑی حقیقت بیان کی گئی ہے جو یہ ہے کہ جب انسان پر کوئی ایسا مشکل وقت آپڑتا ہے جب تمام اسباب اور سہارے منقطع ہوتے نظر آنے لگتے ہیں تو اس وقت اس کی نظر اسباب سے اٹھ کر ایک اللہ پر آلگتی ہے اور وہ خالصتاً اللہ کو پکارنے لگتا ہے پھر جب وہ سختی کا وقت گزر جاتا ہے تو پھر انسان اللہ کو بھول جاتا ہے اور اس کی نظر پھر اسباب کی طرف جمنے لگتی ہے۔ وہ اس بات سے نہیں ڈرتا کہ کہیں پھر اللہ تعالیٰ ویسی ہی تکلیف اور سختی کا ایک اور سبب نہ کھڑا کردے کیونکہ اسباب کی باگ ڈور بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ عکرمہ بن ابی جہل کا اسلام لانا :۔ مشرکین مکہ کی بھی ایسی ہی عادت تھی جس کا اس آیت میں ذکر آیا ہے چنانچہ فتح مکہ کے بعد ابو جہل کا بیٹا عکرمہ (جو ابھی تک مسلمان نہ ہوا تھا) مکہ سے بھاگ کھڑا ہوا تاکہ کہیں قیدی نہ بنالیا جائے۔ جدہ سے بحری سفر اختیار کیا راستہ میں کشتی کو طوفانی ہواؤں نے گھیر لیا حتیٰ کہ مسافروں کو اپنی موت سامنے نظر آنے لگی اس وقت ناخدا نے مسافروں سے کہا کہ اب صرف ایک اللہ کو پکارو یہاں تمہارے دوسرے معبود کچھ کام نہ دیں گے یہ بات سن کر عکرمہ کے ذہن میں یک دم ایک انقلاب سا آگیا وہ سوچنے لگا یہ تو وہی اللہ ہے جس کی طرف محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلاتے ہیں اگر سمندر میں اس کے بغیر نجات نہیں مل سکتی تو خشکی میں بھی وہی کام آسکتا ہے۔ پھر اللہ سے عہد کیا کہ اگر تو نے اس مصیبت سے نجات دی تو فوراً واپس جاکر اسلام قبول کرلوں گا چنانچہ انہوں نے اپنا یہ عہد پورا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ مگر آج کا نام نہاد مسلمان شرک میں مشرکین مکہ سے دو چار ہاتھ آگے نکل گیا ہے وہ کم از کم مصیبت کے وقت تو صرف اللہ کو پکارتے تھے مگر یہ لوگ اس وقت بھی اپنے مشکل کشاؤں کو پکارتے ہیں اور شرک سے باز نہیں آتے شیطان نے ان پر ایسا تسلط جما رکھا ہے کہ مرتے وقت بھی اللہ کو پکارنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ ایسے عقائد کی بنیاد دراصل تصور شیخ کا عقیدہ ہے صوفیاء نے سلوک کی منازل طے کرانے کے تین درجے مقرر کر رکھے ہیں۔۔ (١) فنا فی الشیخ، (٢) فنا فی الرسول، (٣) فنافی اللہ، فنا فی الشیخ کے درجے کی ابتداء تصور شیخ سے کرائی جاتی ہے۔ تصور شیخ سے مراد صرف پیر کی ’’غیر مشروط اطاعت‘‘ ہی نہیں ہوتی بلکہ اسے یہ ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ اس کا پیر ہر وقت اس کے حالات سے باخبر رہتا ہے اور بوقت ضرورت اس کی مدد کو پہنچ جاتا ہے اس عقیدہ کو مرید کے ذہن میں راسخ کرنے کے لیے اسے یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ ہر وقت پیر کی شکل کو اپنے ذہن میں رکھے یہی واہمہ اور مشق بسا اوقات ایک حقیقت بن کر سامنے آنے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو مسلمانوں کو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر مشروط اطاعت کا حکم دیا تھا لیکن صوفیاء کی اس قسم کی تعلیم مرید اور پیر کو عبد اور معبود کے مقام پر لاکھڑا کرتی ہے جس کا کسی نبی کو بھی حق نہ تھا۔ صوفیاء نے پیری کے فن کو خاص تکنیک دے کر عوام پر اس طرح مسلط کردیا ہے کہ کوئی آدمی اس وقت تک اللہ کے ہاں رسائی پا ہی نہیں سکتا جب تک باقاعدہ کسی سلسلہ طریقت میں داخل نہ ہو۔ پہلے تصور شیخ کی مشق کرے حتیٰ کہ فنا فی الشیخ ہوجائے یعنی اسے اپنی ذات کے لیے حاضر وناظر، افعال و کردار اور گفتار کو دیکھنے اور سننے والا سمجھنے لگے تب جاکر یہ منزل ختم ہوتی ہے اور عملاً ہوتا یہ ہے کہ مرید بے چارے تمام عمر فنا فی الشیخ کی منزل میں ہی غوطے کھاتے کھاتے ختم ہوجاتے ہیں یہ گویا اللہ اور اس کے رسول سے بیگانہ کرنے اور اپنا غلام بنانے کا کارگر اور کامیاب حربہ ہے چنانچہ مولانا اشرف علی تھانوی کا درج ذیل اقتباس اس حقیقت پر پوری طرح روشنی ڈالتا ہے۔ تصور فی الشیخ کا گمراہ کن عقیدہ :۔ ان (صوفیاء) کے طریق میں بعض ایسی چیزیں جو نصوص میں وارد نہیں، شرط طریق ہیں اور شرط بھی اعظم واہم۔ چنانچہ تصور شیخ باوجودیکہ کسی نص میں وارد نہیں اور پھر خطرناک بھی ہے اور بعض کو اس میں غلو بھی ہوگیا ہے اور اسی خطرہ و غلو کے سبب مولانا شہیداس کو منع فرماتے تھے مگر باوجود ان باتوں کے اکابر نقشبندیہ اس کو مقصود فرماتے ہیں چنانچہ انوار العارفین ''ذکر تصور شیخ'' میں کنز الہدایہ بحوالہ مکتوبات مجدد صاحب کا ارشاد نقل ہے کہ ’’ذکر تنہا بے رابطہ و بے فنا فی الشیخ موصل نیست۔ ذکر ہرچند از اسباب وصول است لیکن غالباً مشروط برابطہ محبت و فنا فی الشیخ است‘‘ (تجدید تصوف و سلوک ص ٤٤٣)۔ (ترجمہ) فنا فی الشیخ ہونے کے بغیر تنہا ذکر سے اللہ تک رسائی نہیں ہوسکتی اگرچہ ذکر بھی رسائی کا ایک سبب ہے لیکن اس کی غالب شرط (پیر سے) محبت کا تعلق اور اس میں فنا ہونا ہے۔ اقتباس بالا سے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آتے ہیں : ١۔ تصور شیخ کے عقیدہ کا قرآن و سنت میں کہیں سراغ نہیں ملتا۔ ٢۔ یہ عقیدہ انتہائی خطرناک اور گمراہ کن ہے۔ ٣۔ ان دونوں باتوں کے باوجود صوفیاء اور خصوصاً نقشبندیوں نے اللہ تک رسائی کی سب سے بڑی اور اہم شرط قرار دیا ہے : چنانچہ مولانا روم اسی فلسفہ تصور ثلاثہ کی اہمیت یوں بیان فرما رہے ہیں : پیر کامل صورت ظل الٰہ یعنی دید پیر دید کبریا برکہ پیر و ذات اور ایک نہ دید نے مرید نے مرید نے مرید (ترجمہ) ’’پیر کامل اللہ کے سایہ کی صورت ہوتا ہے یعنی پیر کو دیکھنا حقیقتاً اللہ ہی کو دیکھنا ہے جس نے پیر اور اللہ کی ذات کو ایک نہ دیکھا وہ ہرگز مرید نہیں ہے، مرید نہیں ہے، مرید نہیں ہے‘‘ اسی عقیدہ کا یہ اثر ہے کہ معین الدین اجمیری نے فرمایا کہ ’’اگر روز قیامت اللہ تعالیٰ کا جمال میرے پیر کی صورت میں ہوگا تو دیکھوں گا ورنہ اس کی طرف منہ بھی نہ کروں گا۔‘‘ (ریاض السالکین، ص ٢٣١) اور بابا فرید گنج شکر نے فرمایا: ’’اگر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ میرے پیر کی صورت کے سوا کسی دوسری صورت میں اپنا جمال یا کمال دکھائے گا تو میں اس کی طرف آنکھ بھی نہ کھولوں گا‘‘ (اقتباس الانوار، ص ٢٩٠، مطبوعہ مجتبائی دہلی بحوالہ ایضاً) اور شیخ محمد صادق نے فرمایا : ’’اللہ کا دیدار بھی اگر پیر دستگیر کی صورت میں ہوا تو دیکھوں گا ورنہ اسے بالکل نہ چاہوں گا‘‘ (ریاض السالکین، ص ٢٣١) دیکھا آپ نے تصور شیخ کا یہ فارمولا کیسے شاندار نتائج پیدا کرکے مرید کو بس شیخ ہی کی جھولی میں ڈال دیتا ہے یہ عقیدہ جہاں ایک طرف پیر کو خدائی تقدس عطا کرتا ہے تو دوسری طرف مرید کو اندھی عقیدت میں مبتلا کردیتا ہے اس عقیدہ کو مرید کے ذہن میں راسخ کرنے کے لیے جس طرح کے افسانے تراشے جاتے ہیں ان کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جس کے راوی امام اہل سنت احمد رضا خاں مجدد مائۃً حاضر ہیں اور غالباً ’’حدیقہ ندیہ‘‘ کے حوالہ سے روایت کرتے ہیں کہ جنیدبغدادی اور تصورشیخ :۔ ’’ایک مرتبہ سیدی جنید بغدادی دجلہ پر تشریف لائے اور یا اللہ کہتے ہوئے اس پر زمین کی طرح چلنا شروع کردیا بعد میں ایک شخص آیا اسے بھی پار جانے کی ضرورت تھی کوئی کشتی اس وقت موجود نہ تھی جب اس نے حضرت کو جاتے دیکھا عرض کیا میں کیسے آؤں؟ فرمایا یا جنید یا جنید کہتا چلا آ۔ اس نے یہی کہا اور دریا پر زمین کی طرح چلنے لگا جب بیچ دریا میں پہنچا تو شیطان لعین نے دل میں وسوسہ ڈالا کہ حضرت خود تو یا اللہ کہیں اور مجھ سے یا جنید کہلواتے ہیں۔ میں بھی یا اللہ کیوں نہ کہوں؟ اس نے یا اللہ کہا اور ساتھ ہی غوطہ کھایا پکارا یا حضرت! میں چلا۔ فرمایا وہی کہہ ’’یاجنید یا جنید‘‘ جب کہا دریا سے پار ہوا۔ عرض کیا حضرت یہ کیا بات تھی؟ آپ اللہ کہیں تو پار ہوں اور میں کہوں تو غوطہ کھاؤں؟ فرمایا : اے نادان! ابھی تو جنید تک تو پہنچا نہیں اللہ تک رسائی کی ہوس ہے۔ اللہ اکبر‘‘ (ملفوظات مجدد مائۃً حاضر اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی) اب دیکھئے اس واقعہ کے محض ایک افسانہ ہونے کی نقلی دلیل تو یہ ہے کہ آپ اسے غالباً ''حدیقہ ندیہ'' کے حوالہ سے پیش فرما رہے ہیں۔ یعنی محض عقائد کا سہارا لے کر ان تمام اصول اسناد کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ جو علمائے اسلام کی نظر میں علم و حکمت کی روح سمجھے جاتے رہے ہیں اور عقلی دلیل یہ ہے کہ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اگر آج تمام مشائخ اور پیران کرام مل کر بھی ایسا کرشمہ دکھا دیں ان میں سے کوئی ایک دریا پر زمین کی طرف چل کر دکھا دے اور اس کا مرید اللہ کہنے سے غوطہ کھانے لگے تو میں اور میرا کنبہ سب اس کے مرید ہوجائیں گے اور اس افسانہ تراش نے کمال یہ دکھایا ہے کہ اس ایک واقعہ سے قرآن کی بے شمار آیات کا رد پیش فرما دیا ہے۔ مثلاً: ١۔ ہم ہر نماز میں اور اس کی ہر رکعت میں ﴿اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ پڑھتے ہیں یعنی صرف تجھ اکیلے سے استعانت چاہتے ہیں لیکن یہ واقعہ اللہ کو نظر انداز کرکے پیر سے استعانت کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ﴾ لیکن یہ واقعہ بتلاتا ہے کہ مشکل وقت میں اللہ کو پکارنے سے سخت نقصان ہوتا ہے اس کی بجائے اپنے پیر کو بلایا جائے تو بہت ہی فائدہ ہوسکتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : ﴿وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ﴾ (2: 186)لیکن یہ واقعہ بتلاتا ہے کہ قریب پیر ہے اللہ تو بہت دور ہے لہٰذا اگر اللہ تعالیٰ تک رسائی چاہتے ہو تو اپنے پیر کا ذکر کرو۔ اس واقعہ نے شرک کی بہت سی راہیں کھول دی ہیں اور ندا، لغیر اللہ، استمداد، توسل، استعانت اور تصور شیخ جیسے اہم مسائل کو انتہائی ضروری قرار دیا ہے وہاں افسانہ تراش کا کمال یہ ہے کہ ایسا لاجواب افسانہ گھڑا کہ مرید بے چارے کو تسلیم کرنا پڑا کہ میرا اللہ کو پکارنا واقعی ایک شیطانی وسوسہ تھا۔ اب غالباً آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ مشرکین مکہ جب سمندر میں گھر جاتے تھے اور موت سامنے کھڑی نظر آنے لگتی تھی تو اس وقت صرف اکیلے اللہ کو کیوں پکارنے لگتے تھے اور ہمارے دور کے مشرک اس وقت بھی اپنے پیر کو کیوں پکارتے ہیں؟