فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ
پس اس آدمی سے بڑ کر ظالم (١٦) کون ہے جو اللہ کے بارے میں جھوٹ بولے یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے، بیشک مجرم لوگ کامیاب نہیں ہوں گے۔
[٢٦] سب سے بڑھ کر ظالم کون ؟:۔ اللہ پر جھوٹ باندھنے سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخض ایک بات تو خود گھڑے یا تصنیف کرے پھر اسے اللہ کی طرف منسوب کردے جیسا کہ مشرکین مکہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خیال مذکور ہوا ہے ایسا شخص بھی سب سے بڑھ کر ظالم ہے اور اگر نبی اپنے قول میں سچا ہے تو اللہ کی آیات کا منکر بھی ویسا ہی سب سے بڑھ کر ظالم ہوگا اور دونوں کے ظلم میں کوئی فرق نہیں۔ [٢٧] نظریہ کی تبدیلی سے فلاح کے معیار میں تبدیلی :۔ فلاح سے مراد کامیابی سے ہم کنار ہونا ہے لیکن نظریہ کی تبدیلی سے کامیابی کا معیار بھی بدل جاتا ہے مثلاً ایک دنیادار اور آخرت کے منکر کے نزدیک انتہائی کامیابی یہ ہے کہ اسے امن وچین اور عیش و عشرت سے زندگی بسر کرنا نصیب ہو اور لمبی عمر حاصل ہو جبکہ ایک دیندار اور آخرت پر یقین رکھنے والے کے نزدیک کامیابی کا معیار اخروی عذاب سے نجات ہے اگرچہ وہ بھی اللہ سے فلاح دارین کا طالب ہوتا ہے۔ چنانچہ اس دنیا میں بھی اسے وہ کچھ نصیب ہوتا ہے جو اس کے مقدر ہوتا ہے لیکن وہ اس دنیا کی مزعومہ کامیابی کو کامیابی کا معیار قرار نہیں دیتا اس آیت میں جس کامیابی کا ذکر ہے اس سے مراد اخروی فلاح ہے یعنی اللہ پر جھوٹ باندھنے یا اس کی آیات کو جھٹلانے والوں کو کبھی اخروی فلاح نصیب نہیں ہوگی۔