سورة یونس - آیت 7

إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بیشک جو لوگ ہماری ملاقات (١٠) کی امید نہیں رکھتے ہیں، اور دنیا کی زندگی پر خوش اور مطمئن ہیں اور جو ہماری آیتوں سے غافل ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٢] روز آخرت پر ایمان نہ ہونے سے اخلاقی اقدار بدل جاتی ہیں :۔ یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی مذکورہ آیات میں غور و فکر کی زحمت ہی گوارہ نہ کریں اور نہ اس کی ضرورت محسوس کریں بس دنیا کی زندگی پر ہی مست رہیں اور اپنی ساری زندگی اسی دنیا کے کاروبار میں منہمک ہو کر گزار دیں تو ایسے لوگوں کو بھلا اخروی زندگی کا یقین کیسے آئے اور چونکہ اللہ نے انسان کو قوت تمیز، عقل اور ارادہ و تصرف کا اختیار عطا کیا ہے لہٰذا جو لوگ عقل کو کام میں نہ لاتے ہوئے بس دنیا میں مگن اور دنیوی مفادات کے لیے ہی سب کچھ کرتے ہیں انہیں اس غفلت کا بدلہ جہنم کی صورت میں مل کر رہے گا۔ اس آیت سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوجاتی ہے کہ نیک اعمال صرف وہی لوگ بجالاسکتے ہیں، جو روز آخرت میں اللہ کے سامنے جواب دہی کے نظریہ پر یقین رکھتے ہوں گویا روز آخرت پر ایمان ہی وہ بنیاد ہے جس پر انسان کی صالح طرز زندگی کی عمارت اٹھائی جاسکتی ہے اگر یہ بنیاد کمزور ہو یا موجود ہی نہ ہو تو کوئی ایسی طاقت نہیں جو انسان کو بے راہروی سے محفوظ رکھ سکے۔ اندریں صورت انسان کے اچھے اخلاق یا اعمال کی پہچان صرف یہ رہ جاتی ہے کہ صرف وہ کام اچھا ہے جس کا فائدہ اس کی اپنی ذات کو، اس کی قوم کو یا معاشرہ کو اس دنیا میں پہنچ سکتا ہے غیروں کے لیے ان کے اخلاق و اعمال کی قدریں ہی بدل جاتی ہیں۔