سورة یونس - آیت 3

إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بیشک تمہارا رب وہ اللہ (٣) ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر عرش پر مستوی ہو کر تمام امور کی دیکھ بھال کرنے لگا، اس کی جناب میں کوئی سفارشی (٤) نہیں، الا یہ کہ اس کی اجازت کے بعد کوئی سفارش کرے، وہی اللہ تمہارا رب (٥) ہے، پس تم اسی کی عبادت کرو، کیا تم ان باتوں سے نصیحت حاصل نہیں کرتے ہو۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥] عبادت کا مستحق صرف وہ ہے جو پروردگار ہو :۔ اس آیت سے ربوبیت کے دلائل اور ان کے نتائج کا آغاز ہو رہا ہے۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے ارض و سماوات کو چھ ایام (ادوار) میں پیدا کیا یعنی یہ کائنات از خود ہی وجود میں نہیں آگئی جیسا کہ دہریوں کا خیال ہے پھر عرش پر قرار پکڑا (تشریح کے لیے دیکھئے سورۃ اعراف کی آیت نمبر ٥٤) پھر وہ کائنات کو پیدا کرکے بیٹھ نہیں گیا جیسا کہ بعض گمراہ لوگوں کا خیال ہے۔ بلکہ اس کا پورا انتظام چلارہا ہے۔ شمس و قمر اور ستارے سب اسی کے حکم کے مطابق گردش کر رہے ہیں اس کا رعب و داب اور اس کا تصرف اتنا زیادہ ہے کہ کوئی اس کے سامنے کسی دوسرے کی سفارش بھی کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا الا یہ کہ وہ خود ہی کسی کو سفارش کی اجازت دے لہٰذا ان سب باتوں کا تقاضا یہ ہے کہ تم لوگ اسی بااختیار اور مقتدر ہستی کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو، کیونکہ وہی تمہارا پروردگار ہے۔ رب اور عبادت دونوں الفاظ بڑے وسیع معنی رکھتے ہیں جو سورۃ فاتحہ میں بتلائے جاچکے ہیں۔ یہاں اتنا اشارہ کافی ہے کہ اللہ کو فی الواقع رب تسلیم کرلینے کا نتیجہ ہی یہ نکلتا ہے کہ عبادت کی تمام اقسام صرف اسی کے لیے مختص کردی جائیں۔