مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الْأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُوا عَن رَّسُولِ اللَّهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ
اہل مدینہ اور ان کے آس پاس کے دیہاتیوں (٩٥) کے لیے یہ بات مناسب نہ تھی کہ وہ رسول اللہ کے ساتھ جانے سے پیچھے رہ جاتے، اور اپنی جانوں کو ان کی جان پر ترجیح دیتے، اس لیے کہ اگر مجاہدین کو راہ جہاد میں پیاس لگی، یا کوئی تکلیف پہنچی، یا بھوک نے ستایا، یا کسی جگہ سے ان کی گزر نے کافروں کو ناراض کیا، یا دشمن سے کوئی چیز چھین لی، تو ان میں سے ہر ایک کے بدلے ان کے لیے ایک نیک کام لکھا گیا، بیشک اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
[١٣٦] رسول اللہ کو اپنی جان سے عزیز سمجھنے سے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے :۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو سفر تبوک کی صعوبتیں برداشت کریں اور مسلمان ان کے بعد اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے رہیں۔ اور اللہ کے رسول کی جان سے اپنی جانوں کو عزیز تر سمجھیں۔ ایک صحابی ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ بھی غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ وہ اپنے باغ میں گئے وہاں ٹھنڈا سایہ تھا۔ آپ کی بیوی نے پانی چھڑک کر زمین کو خوب ٹھنڈا کیا۔ چٹائی کا فرش کیا۔ تازہ کھجور کے خوشے سامنے رکھے اور ٹھنڈا میٹھا پانی بھی حاضر کیا۔ یہ سامان عیش دیکھ کر دفعتاً ابو خیثمہ کے دل میں بجلی کی سی ایک لہر دوڑ گئی۔ بولے تف ہے اس زندگی پر کہ میں تو خوشگوار سائے، ٹھنڈے پانی اور باغ و بہار کے مزے لوٹوں اور اللہ کا رسول ایسی سخت لو اور تپش اور تشنگی کے عالم میں سفر کر رہے ہوں۔ یہ خیال آتے ہی سواری منگائی، تلوار حمائل کی، نیزہ سنبھالا اور فوراً چل کھڑے ہوئے۔ اونٹنی تیز ہوا کی طرح چل رہی تھی۔ آخر لشکر کے پاس پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دور سے دیکھا کہ کوئی شتر سوار ہوا کے دوش پر سوار گرد اڑاتا چلا آرہا ہے اور فرمایا اللہ کرے یہ ابو خیثمہ ہو۔ تھوڑی دیر میں دیکھ لیا کہ وہ ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک کوئی مومن مجھے اپنی جان سے بھی عزیز نہ سمجھے اس وقت تک اس کا ایمان مکمل ہی نہیں ہوتا جیسا کہ درج ذیل حدیث میں آیا ہے۔ عبداللہ بن ہشام فرماتے ہیں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عمر کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ’’یا رسول اللہ! آپ میرے نزدیک اپنی جان کے علاوہ ہر چیز سے محبوب ہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ عزیز (محبوب) نہ ہوجاؤں تم مومن نہیں ہو سکتے۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ’’اللہ کی قسم! اب آپ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہاں اے عمر! (یعنی اب تم صحیح مسلمان ہو)‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب کیف کانت یمین النبی ) [١٣٧] یعنی جہاد کے سفر میں مجاہد کے ہر ایک فعل کے بدلے ایک عمل صالح اس کے اعمال نامہ میں لکھ دیا جاتا ہے خواہ یہ فعل غیر اختیاری ہو۔ جیسے بھوک پیاس کو برداشت کرنا یا تھکاوٹ یا کوئی ایسی تکلیف اسے اس راہ میں پیش آ رہی ہو یہ سب اس کے صالح اعمال میں شمار ہوں گے اور خواہ یہ فعل اختیاری ہوں جیسے سفر طے کرنا، دشمن سے کوئی علاقہ چھیننا یا اس سے جنگ کر کے کامیابی حاصل کرنا، ان تمام تر کاموں کا اللہ کے ہاں انہیں اجر ملے گا۔