وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
اور ان تینوں پر بھی (توجہ فرمائی) جو پیچھے رہ گئے گئے، یہاں تک کہ جب زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی، اور خود ان کی جانیں ان پر تنگ ہوگئیں اور انہیں یقین ہوگیا کہ اللہ سے بھاگ کر اس کی جناب کے علاوہ دنیا میں اور کوئی جائے پناہ نہیں ہے، تو اللہ نے ان کی طرف توجہ فرمائی تاکہ وہ توبہ کریں، بیشک اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔
[١٣٤] سیدنا کعب بن مالک اور ان کے دوسرے ساتھیوں کا قصہ :۔ یہ وہ تین آدمی ہیں جن کا اجمالی ذکر اس سورۃ کی آیت نمبر ١٠٦ میں آ چکا ہے اور وہ سیدنا کعب بن مالکص، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن الربیع صتھے اور تینوں پہلے بارہا اپنے اخلاص کا ثبوت دے چکے تھے اور کعب بن مالک تو ان صحابہ میں سے تھے جنہوں نے لیلۃ العقبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے تاہم آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ مجھے لیلۃ العقبہ کی بیعت میں شمولیت غزوہ بدر میں شمولیت سے زیادہ عزیز ہے۔ بہت سی صحیح احادیث میں ان کا قصہ خود انہی سے مروی ہے۔ ان میں سے دو احادیث ہم یہاں درج کرتے ہیں : ١۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ خود بیان کرتے ہیں کہ جس غزوہ میں بھی نبی اکرم شریک ہوتے ہیں ان کے ساتھ ہوتا بجز دو لڑائیوں کے ایک غزوہ عسرہ (جنگ تبوک) اور دوسری غزوہ بدر۔ جنگ تبوک کے موقع پر میں نے پکی نیت کرلی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کے وقت مدینہ تشریف لائیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچ سچ کہہ دوں گا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر جب سفر سے تشریف لاتے تو چاشت کے وقت ہی آتے۔ پہلے مسجد میں جاتے اور دو رکعت نماز ادا کیا کرتے۔ جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچ سچ بات بتلا دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مجھ سے اور میرے (جیسے) دو ساتھیوں (ہلال بن امیہ اور مرارہ بن الربیع) سے بات چیت کرنے سے منع کردیا۔ ہم تین آدمیوں کے سوا جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے اور (جھوٹے عذر پیش کر رہے تھے) ان کے لیے یہ حکم نہیں دیا۔ اب صحابہ نے ہم سے بات چیت کرنا چھوڑ دی اس حال میں زندگی مجھ پر دوبھر ہوگئی۔ مجھے بڑی فکر یہ تھی کہ اگر میں اسی حال میں مر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے جنازے پر نماز بھی نہیں پڑھیں گے یا (خدانخواستہ) آپ کی وفات ہوجائے تو میں ساری عمر اسی مصیبت میں مبتلا رہوں گا نہ مجھ سے کوئی بات چیت کرے گا اور اگر مر گیا تو کوئی نماز بھی نہ پڑھے گا۔ آخر (پچاس دن گزرنے کے بعد) اللہ تعالیٰ نے ہماری معافی کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا۔ اس وقت تہائی رات باقی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھے۔ ام سلمہ میری بھلائی کی فکر میں تھیں اور میری مدد کرنا چاہتی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہا ’’ام سلمہ! کعب بن مالک کی توبہ قبول ہوگئی۔‘‘ تو انہوں نے کہا ’’میں کعب کو مبارک باد کہلا بھیجوں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لوگ ہجوم کر آئیں گے اور تمہاری نیند خراب کردیں گے۔‘‘ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھی تو لوگوں کو ہماری توبہ قبول ہونے کی خبر دی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی اچھی خبر ملتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ یوں چمکنے لگتا جیسے چاند کا ایک ٹکڑا ہے۔ ہم تین آدمیوں کے لیے، جن کا معاملہ التواء میں ڈال دیا گیا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے معافی کا حکم اتارا اور باقی جن لوگوں نے جھوٹے بہانے تراشے تھے ان کا ذکر بری طرح کیا گیا۔ اتنا برا ذکر اللہ نے اور کسی کا نہیں کیا۔ فرمایا ’’جب تم ان کے پاس واپس آؤ گے تو وہ آپ کے سامنے معذرت شروع کردیں گے۔ آپ ان سے کہہ دیجئے:بہانے نہ بناؤ، ہم تمہاری باتوں پر یقین نہیں کریں گے۔ کیونکہ اللہ نے ہمیں تمہارے حالات بتلا دیئے ہیں۔ اور آئندہ بھی اللہ اور اس کا رسول تمہارے کام دیکھ لیں گے۔۔‘‘ تاآخر (آیت نمبر ٩٤) (بخاری کتاب التفسیر) ٢۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ان تین آدمیوں میں سے تھے جو جنگ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے اور ان کا معاملہ التواء میں ڈال دیا گیا تھا۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ آخر عمر میں نابینا ہوگئے تھے اور ان کے بیٹے عبداللہ بن کعب انہیں لے کر چلا کرتے تھے۔ عبداللہ بن کعب کہتے ہیں کہ جب کعب اپنا قصہ بیان کرتے تو فرمایا کرتے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ’’میں اپنی توبہ کے قبول ہونے کے شکریہ میں اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے لیے صدقہ کرتا ہوں۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’نہیں تھوڑا سا مال اپنے لیے بھی رکھ لو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) پہلی حدیث میں چند اہم باتیں مذکور نہیں جو دوسری احادیث میں مذکور ہیں اور وہ یہ ہیں : ١۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جن دنوں میرے ساتھ صحابہ کی گفتگو بند کی گئی تھی انہی دنوں میں شام کے عیسائیوں میں سے مجھے ایک شخص ملا اور اس نے شاہ غسان کا حریر میں لپٹا ہوا خط مجھے دیا۔ اس خط میں لکھا تھا کہ ’’ہم نے سنا ہے کہ تمہارے صاحب نے تم پر تشدد کیا ہے۔ تم ایسے حقیر آدمی نہیں جسے ضائع کیا جائے۔ اگر تم ہمارے پاس آ جاؤ تو ہم تمہاری پوری پوری قدر کریں گے۔‘‘ میں نے یہ خط پڑھ کر سمجھ لیا کہ یہ ایک اور آزمائش مجھ پر نازل ہوئی ہے چنانچہ میں نے اس خط کو فوراً چولہے میں جھونک دیا۔ ٢۔ جب چالیس دن اسی حالت میں گزر گئے تو ہم تینوں کو حکم ہوا کہ ہم اپنی بیویوں سے بھی الگ رہیں۔ میں نے پوچھا ’’طلاق دے دوں؟‘‘ جواب ملا ’’نہیں بس الگ رہو۔ ‘‘ہلال بن امیہ کی بیوی آپ کے پاس گئی اور کہنے لگی کہ ہلال بن امیہ نہایت کمزور ہے اور وہ اکیلا نہیں رہ سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے خاوند کے پاس رہنے کی اجازت دے دی صحبت وغیرہ کی اجازت نہیں دی۔ مگر میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ۔ اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس معاملہ کا فیصلہ کر دے۔ ٣۔ مزید دس دن یعنی کل پچاس دن گزر جانے کے بعد ہم لوگوں کی اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول کرلی۔ اللہ تعالیٰ نے ان مخلص صحابہ کا جو کڑا امتحان لیا تھا اس میں وہ پورے اترے۔ پھر اللہ نے نہایت شفقت بھرے الفاظ میں ان کی صرف توبہ ہی قبول نہیں فرمائی بلکہ اگلی آیت میں ان کی سچائی، راست بازی اور وفاداری کی تعریف بھی فرمائی۔