مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ
نبی اور ایمان والوں کے لیے یہ مناسب نہ تھا کہ وہ مشرکوں کے لیے یہ بات کھل کر سامنے آجانے کے بعد کہ وہ جہنمی ہیں دعائے مغفرت (٩١) کریں، چاہے وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔
[١٢٩] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یتیم پیدا ہوئے تھے۔ آٹھ سال کی عمر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دادا عبدالمطلب کے زیر تربیت رہے۔ پھر عبدالمطلب بھی فوت ہوگئے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کے سپرد کر گئے۔ ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت پیار و محبت سے تربیت کی جب چالیس سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمن بن گئی لیکن ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھرپور حمایت کی اور اسلام نہ لانے کے باوجود ہر مشکل وقت میں ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ڈھال کا کام دیتے رہے۔ شعب ابی طالب میں تین سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ابو طالب سے بہت محبت تھی۔ نبوت کے آٹھویں سال ابو طالب کی وفات ہوگئی جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید صدمہ ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طالب کی پدرانہ شفقت اور اسلامی خدمات کے جذبات سے متاثر ہو کر اس کے حق میں استغفار کا وعدہ کیا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ مشرکین کے لئے دعائے مغفرت کی ممانعت اور قصہ ابو طالب :۔ مسیب بن حزن (سعید بن مسیب کے والد) کہتے ہیں کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے اس وقت ان کے پاس ابو جہل بیٹھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طالب سے کہا ’’چچا لا الہ الا اللہ کہہ لو۔ مجھے اپنے پروردگار کے ہاں (تمہاری مغفرت کے لیے) ایک دلیل مل جائے گی۔‘‘ ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ کہنے لگے : کیا تم عبدالمطلب کے دین کو چھوڑ دو گے؟ دونوں برابر یہی سمجھاتے رہے آخر ابو طالب نے آخری بات جو کہی وہ یہ تھی کہ میں عبدالمطلب کے دین پر (مرتا) ہوں۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہارے لیے بخشش کی دعا کرتا رہوں گا۔ جب تک مجھے اس سے منع نہ کیا جائے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ قصہ ابی طالب) اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے نزول سے پہلے مشرکوں کے لیے دعائے مغفرت کرنا منع نہ تھا۔