إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
بیشک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کا سودا اس عوض میں کرلیا ہے کہ انہیں جنت ملے گی وہ اللہ کی راہ میں جہاد (٨٩) کرتے ہیں، پس دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور خود بھی قتل کیے جاتے ہیں، اللہ کا یہ برحق وعدہ تورات اور انجیل اور قرآن میں موجود ہے، اور اللہ سے زیادہ اپنے وعدے کا پکا کون ہوسکتا ہے، پس تم لوگ اپنے سودے پر خوش ہوجاؤ جو تم نے اللہ سے کیا ہے، اور یہی عظیم کامیابی ہے۔
[١٢٤] جان ومال فروخت کرنے کا مفہوم :۔ اس کا ایک مفہوم تو ترجمہ سے ہی واضح ہوجاتا ہے یعنی جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے جان و مال سے جہاد کرتے ہیں پھر خواہ وہ شہید ہوجائیں یا بچ کر آ جائیں بہرصورت ان کو جنت ضرور ملے گی۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ حقیقت میں تو ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور مومنوں کی جانوں اور اموال کا بھی ہے لیکن اس نے یہ چیزیں بطور امانت دے رکھی ہیں اور ان میں تصرف کا اختیار بھی انسان کو دے رکھا ہے۔ اسی اختیار سے دستبردار ہوجانے اور اس اختیار کو اللہ کی رضا کے تابع بنا دینے کی قیمت یہ ہے کہ اللہ انہیں جنت عطا کرے گا اور چونکہ یہ قیمت یعنی جنت نقد بہ نقد نہیں ملتی بلکہ ادھار ہے جو مرنے کے بعد ہی ملے گی۔ لہٰذا یہ توثیق بھی فرما دی۔ اللہ کا یہ وعدہ سب الہامی کتابوں میں بالخصوص تورات، انجیل اور قرآن میں موجود ہے مزید برآں یہ وضاحت بھی فرما دی کہ اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدہ کو پورا کرنے والا اور کون ہوسکتا ہے۔ لہٰذا مومنوں کے لیے اس وعدہ میں شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اہل ایمان نے اپنی جانوں اور اموال میں تصرف کے جملہ اختیارات تو اللہ کے ہاتھ فروخت کردیئے ہیں اور بوقت ضرورت جان و مال کا نذرانہ پیش کرنا اور جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لینا پھر شہید ہوجانا یا بچ کر آ جانا یہ سب کچھ وقتی باتیں اور اسی اصل معاہدہ بیع کا ایک حصہ ہیں۔ اصل معاہدہ بیع یہی ہے کہ مومن اپنی جان میں اور اموال میں اللہ کی مرضی کے مطابق ہی تصرف کرے گا۔ یہ معاہدہ بیع انسان کی موت تک چلتا ہے۔ اس سے پہلے یہ پتہ چل ہی نہیں سکتا کہ انسان نے یہ معاہدہ بیع اپنی عمر بھر نبھایا بھی ہے یا نہیں۔ اور جب موت آ جاتی ہے تو اس وقت اسے اس کی قیمت یعنی جنت فوراً مل جاتی ہے۔ اس صورت میں ادھار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس مفہوم کے مطابق یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کسی شخص کو زندگی بھر جہاد کا موقع ہی میسر نہ آیا ہو۔ مگر اس نے اپنی جان ، اپنے مال اور اپنے اختیار تصرف کو اللہ کی مرضی کے تحت رکھا ہو تو اس سے بھی جنت کا وعدہ ہے۔