وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ ۖ وَسَتُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
آپ کہیے کہ تم لوگ نیک عمل (٨٣) کرو، اس لیے کہ اللہ آئندہ تمہارے عمل کو دیکھے گا اور اس کے رسول اور مومنین بھی، اور تم لوگ اس ذات کی طرف لوٹائے جاؤ گے جو غائب و حاضر کا جاننے والا ہے، پھر تمہیں تمہارے کیے کی خبر دے گا۔
[١١٨] ایک مسلمان اور منافق کا عذر جانچنے کے اصول :۔ ان آیات سے دراصل ایک منافق اور ایک غلطی سے گناہ کرنے والے مسلمان کے درمیان فرق کو واضح کیا گیا ہے۔ ١۔ منافق گناہ کر کے جھوٹے بہانے بناتے اور قسمیں اٹھاتے ہیں جبکہ مومن اپنے گناہ کا صاف صاف اقرار کرلیتے ہیں۔ ٢۔ گناہ گار مومن کی سابقہ زندگی اس بات پر شاہد ہوتی ہے کہ یہ گناہ اس سے نفس کی کمزوری سے واقع ہوگیا ہے جبکہ منافق کا سابقہ ریکارڈ بھی گندہ ہوتا ہے۔ ٣۔ توبہ صرف اس کی قبول ہوتی ہے جس کا سابقہ ریکارڈ درست ہو اور یہ موجودہ گناہ بہ تقاضائے بشریت واقع ہوگیا ہو۔ عادی مجرموں یعنی منافقوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ صدقات صرف ان کے قبول کرتا ہے جو برضاء و رغبت صدقات دیتے ہیں اور اسے قرب الٰہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ نمائش یا مجبور ہو کر یا کراہت سے دیئے ہوئے صدقے اللہ قبول ہی نہیں کرتا۔ ٥۔ منافقوں کے صدقات اس لحاظ سے بھی ناقابل قبول ہیں کہ صدقہ مصائب کو ٹالتا اور گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنتا ہے۔ اللہ کے ہاں چونکہ منافق کی مغفرت کی کوئی صورت نہیں لہٰذا صدقہ کی بھی ضرورت نہیں۔ ٦۔ توبہ کی مقبولیت کا اس بات سے بھی واضح طور پر پتہ چل سکتا ہے کہ توبہ کے بعد توبہ کرنے یا معذرت کرنے والا کیسے اعمال بجا لاتا ہے۔ اگر ان میں ایمان و اخلاص آ گیا تو سمجھنا چاہیے کہ وہ نفاق کی سزا سے بچ نکلا۔