اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
آپ ان کے لیے مغفرت کی دعا کیجئے یا نہ کیجئے (61) (برابر ہے) اگر آپ ان کے لیے ستر بار بھی مغفرت کی دعا کریں گے تب بھی اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا، اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کردیا ہے، اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ہے
[٩٥] آپ کا عبداللہ بن ابی منافق کا جنازہ پڑھانے کی وجوہ :۔ غزوہ تبوک سے واپسی کے تھوڑی ہی مدت بعد عبداللہ بن ابی بن سلول کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بیٹے کا نام بھی عبداللہ تھا اور یہ پکے سچے مسلمان صحابی تھے اور اپنے باپ کی کرتوتوں سے خوب واقف تھے۔ جب غزوہ بنی مصطلق کے واپسی سفر کے دوران عبداللہ بن ابی نے کہا تھا کہ مدینہ جا کر عزت والا (یعنی خود) ذلت والے کو مدینہ سے نکال کر باہر کرے گا۔ تو یہ اپنے باپ کی راہ روک کر کھڑے ہوگئے جس کا مطلب یہ تھا کہ میری بھی نظروں میں چونکہ تم ہی ذلیل ہو لہٰذا تمہیں مدینہ میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی مانگی تب عبداللہ رضی اللہ نے اپنے باپ کو مدینہ میں داخل ہونے دیا تھا۔ مگر باپ کی وفات پر خون نے جوش مارا اور طبیعت میں رحم، ہمدردی اور پدرانہ شفقت کے جذبات ابھر آئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتہ مانگا تاکہ اس میں باپ کو دفن کریں تاکہ شاید کچھ عذاب میں کمی واقع ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین وجوہ کی بنا پر اسے کرتہ دے دیا ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی طبیعت میں رحم اور عفو کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، دوسرے یہ کہ اساریٰ بدر کے فیصلہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا عباس ننگے تھے۔ وہ طویل القامت تھے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی سے قمیص مانگی جو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے قد کے موافق تھی۔ وہ اس نے دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ اس احسان کا بدلہ چکا دیں۔ اور تیسرے یہ کہ اس حالت میں عبداللہ صحابی کا دل شکستہ نہ ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی درخواست پر اس منافق کا جنازہ پڑھانے کے لیے اس کے ساتھ ہوئے نیز اس کے منہ میں اپنا لعاب دہن بھی لگایا۔ مزید تفصیل درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے :۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی بن سلول مر گیا تو اس کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور درخواست کی کہ اپنا کرتہ عنایت فرمائیے تاکہ میں اپنے باپ کو اس میں کفن دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرتہ دے دیا۔ پھر اس نے درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نماز جنازہ پڑھیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو سیدنا عمر رضی اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن تھام لیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ اس پر نماز پڑھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے لوگوں پر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے (منع نہیں کیا بلکہ) اختیار دیا ہے اور فرمایا ہے تو ان لوگوں کے لئے دعا کرے یا نہ کرے اگر تو ستر بار بھی ان کے لیے دعا کرے تب بھی اللہ انہیں بخشے گا نہیں۔ میں ایسا کروں گا کہ ستر بار سے زیادہ دفعہ اس کے لیے دعا کروں گا۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ وہ تو منافق تھا اور اس کی کئی کرتوتیں یاد دلائیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کے باوجود) اس پر نماز جنازہ پڑھی۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ منافقوں میں جب کوئی مر جائے تو نہ اس کی نماز جنازہ پڑھو اور نہ ہی (دعائے خیر کے لیے) اس کی قبر پر کھڑے ہونا (٩ : ٨٤) (بخاری۔ کتاب التفسیر نیز کتاب الجنائز۔ باب الکفن فی القمیص) (مسلم۔ کتاب فضائل الصحابہ۔ باب من فضائل عمر) نیز اسی سورۃ کی آیت نمبر ٨٤ کا حاشیہ نمبر ٩٩ بھی اسی سے متعلق ہے۔