وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار (54) ہوتے ہیں، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں، اور زکاۃ دیتے ہیں، اور اللہ اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں، اللہ انہی لوگوں پر رحم کرے گا، بے شک اللہ زبردست، بڑی حکمتوں والا ہے
[٨٦] منافق کے مقابلہ میں مومنوں کی زندگی :۔ اب منافقوں کے مقابلہ میں اس آیت میں سچے مومنوں کے خصائل کا ذکر کیا جا رہا ہے اور بتلایا جا رہا ہے کہ اگرچہ منافق بھی مسلمانوں میں شامل رہتے ہیں اور ان سے ملے جلے رہتے ہیں مگر ان دونوں طبقوں کے اخلاقی مزاج، عادات و خصائل ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ منافق برے کاموں پر خوش ہوتے ہیں اور ان میں مددگار ثابت ہوتے ہیں تو مومن برے کاموں سے خود بھی بچتے ہیں اور دوسروں کو بھی منع کرتے ہیں منافق اچھے کاموں پر خود بھی عمل پیرا نہیں ہوتے اور دوسروں کو بھی ان سے منع کرتے ہیں یا ایسے کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کردیتے ہیں جبکہ مومن خود بھی بھلے کام کرتے، دوسروں کو ان کی تلقین کرتے اور ایسے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کرتے ہیں۔ منافق کی نماز دکھلاوے کی ہوتی ہے جسے وہ ایک بیگار سمجھ کر ادا کرتا ہے، اسی طرح وہ زکوٰۃ بھی جرمانہ اور تاوان سمجھ کر ادا کرتا ہے تاکہ اسے مسلمانوں میں سے ہی سمجھا جا سکے جبکہ مومن یہ دونوں کام اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ان کے اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے۔ وہ یہ کام دل کی خوشی سے کرتے ہیں تاکہ انہیں اللہ کی رضا حاصل ہو۔ اس لحاظ سے مومن اور منافق اگرچہ ایک ہی امت کے اجزاء ہیں تاہم یہ ایک دوسرے کی عین ضد ہیں اور اسی لحاظ سے منافقوں کے کفر میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔ کیونکہ وہ مومنوں کی عین ضد ہیں۔