كَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ كَانُوا أَشَدَّ مِنكُمْ قُوَّةً وَأَكْثَرَ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُم بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُم بِخَلَاقِهِمْ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خَاضُوا ۚ أُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
تم ان لوگوں کے مانن ہو جو تم سے پہلے (52) تھے، وہ لوگ تم سے زیادہ قوی اور زیادہ مال و اولاد والے تھے، انہوں نے اپنے حصہ کی دنیاوی نعمتوں سے فائدہ اٹھایا، تو تم نے بھی اپنے حصہ سے فائدہ اٹھایا، جس طرح ان لوگوں نے اپنے حصہ سے فائدہ اٹھایا جو تم سے پہلے تھے، اور تم نے بھی (قرآن، اسلام اور نبی پر) نکتہ چینی کی، جیسا کہ انہوں نے کی تھی، ان کے اعمال دنیا اور آخرت میں برباد ہوگئے، اور وہی لوگ خائب و خاسر ہیں
[٨٣] یعنی قوم عاد، ثمود، نوح، ابراہیم وغیرہ وغیرہ ایسی اقوام تھیں جن کی شان و شوکت تم لوگوں سے بڑھ کر تھی۔ انہوں نے تم سے بہت زیادہ عیش و عشرت سے زندگی بسر کی تھی۔ وہ لوگ طاقت کے لحاظ سے بھی تم سے مضبوط تر تھے اور مال اور اولاد کے لحاظ سے بھی تم سے بہت آگے تھے۔ وہ لوگ بھی دنیا میں مست ہو کر آیات کو بھول گئے تھے۔ اس کی نافرمانیوں پر اتر آئے اور اللہ کی آیات سے مذاق اور دل بہلاوے کرنے لگے تھے۔ اور آج تم بھی بعینہ وہی کچھ کر رہے ہو۔ اللہ کو بھول جانے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی نے دنیا میں کوئی اچھے کام کیے بھی ہوں تو آخرت میں وہ سب رائیگاں جائیں گے کیونکہ اعمال کی جزا تو صرف اس صورت میں ملتی ہے کہ اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان ہو اور جب یہ بنیاد ہی موجود نہ ہو تو پھر جزاء کیسی؟ اور اس سے بڑھ کر خسارہ کیا ہوسکتا ہے کہ کسی شخص کو اس کی کی ہوئی محنت کا ثمرہ ہی نہ مل سکے۔