وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ۚ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ
اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے تو وہ کہیں گے کہ ہم تو یونہی گپ شپ (50) کرتے تھے اور دل بہلاتے تھے، آپ کہئے کہ کیا تم لوگ اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول کا مذاق اڑاتے تھے
[٧٨] منافقوں کی دل لگی کا موضوع؟ غزوہ تبوک میں منافقین کی ایک جماعت بھی شامل تھی۔ جنہیں چار و ناچار ساتھ جانا پڑگیا تھا۔ مگر راستہ میں بھی انہیں شرارتیں ہی سوجھتی رہیں اور ایسی باتیں کرنے لگے جس سے مسلمانوں کے حوصلے پست ہوجائیں۔ مثلاً ایک نے کہا : یہ مسلمان بھی عجیب غلط فہمی اور دیوانگی میں مبتلا ہیں جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ اگر ہم مکہ کے قریش پر غالب آ گئے ہیں تو قیصر روم کا مقابلہ کرنے کے لیے چڑھ دوڑے ہیں حالانکہ روم وہ عظیم طاقت ہے جو کسریٰ کو بھی شکست دے چکا ہے اور اس وقت اس کا طوطی بول رہا ہے۔ دوسرا کہنے لگا میں تو سمجھتا ہوں کہ ہم سب جکڑ بند کر کے قید کردیئے جائیں گے اور شاید ان کے ہاتھوں ہماری بڑی سخت پٹائی بھی ہو۔ پھر کبھی انہیں یہ خیال بھی آنے لگتا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پیغمبر کو اللہ تعالیٰ ہماری ان باتوں پر اور دلوں کے حالات پر وحی کے ذریعہ مطلع کر دے۔ چنانچہ ان کا یہ خطرہ سچ ثابت ہوا۔ اور جب آپ کو فی الواقع بذریعہ وحی ان لوگوں کے حالات سے مطلع کیا گیا تو آپ نے انہیں بلا کر باز پرس کی تو کہنے لگے : ہم تو یہ باتیں اس طویل سفر میں محض دل بہلاوے کے طور پر کر رہے تھے سنجیدگی سے نہیں کر رہے تھے۔ اللہ نے اس کا یہ جواب دیا کہ کیا تمہیں اس دل بہلاوے اور ہنسی مذاق کے لیے ایسی ہی باتیں سوجھتی ہیں جن میں اللہ اور اس کے رسول کی سبکی ہوتی ہو اور اسلام کی سربلندی کے مقصد کو نقصان پہنچتا ہو؟ اور کوئی بات تمہیں دل بہلاوے کے لیے نہیں سوجھتی۔