إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
بے شک اموالِ صدقہ (46) فقیروں کے لیے اور مسکینوں کے لیے اور انہیں اکٹھا کرنے والوں کے لیے اور ان کے لیے ہیں جن کا دل جیتنا مقصود ہو، اور غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرانے کے لیے اور قرضداروں کا قرض چکانے کے لیے ہے، اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے اور مسافر کے لیے ہیں، یہ حکم اللہ کی جانب سے ہے اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑی حکمتوں والا ہے
[٦٥] یہاں صدقات سے مراد صرف فرضی صدقہ یا زکوٰۃ ہے جیسا کہ بعد کے الفاظ فریضۃ من اللّٰہ سے واضح ہوتا ہے۔ صدقات کی تقسیم پر بھی منافقوں کو اعتراض ہوا تھا تو اس کی تقسیم کی مدات اللہ تعالیٰ نے خود ہی مقرر فرما دیں تاکہ ان کی تقسیم میں اعتراض کی گنجائش ہی نہ رہے یا کم سے کم رہ جائے۔ اور یہ کل آٹھ مدات ہیں جو درج ذیل ہیں۔ [٦٦] زکوٰۃ کے حقدار مسکین اور فقیر میں فرق :۔ فقیر اور مسکین کی تعریف اور ان میں فرق سے متعلق علماء کے کئی اقوال ہیں۔ اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث قول فیصل کی حیثیت رکھتی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مسکین وہ نہیں جو ایک یا دو لقموں کے لیے لوگوں کے پاس چکر لگائے کہ اسے ایک یا دو کھجوریں دے کر لوٹا دیا جائے بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہ ہو جو اسے بے نیاز کر دے۔ نہ اس کا حال کسی کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے صدقہ دیا جائے، نہ وہ لوگوں سے کھڑا ہو کر سوال کرتا ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ (لَا یَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ، مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب المسکین الذی لایجد غنی ) گویا احتیاج کے لحاظ سے فقیر اور مسکین میں کوئی فرق نہیں۔ ان میں اصل فرق یہ ہے کہ فقیر وہ ہے جو لوگوں سے سوال کرتا پھرے اور مسکین وہ ہے جو احتیاج کے باوجود قانع رہے اور سوال کرنے سے پرہیز کرے جسے ہمارے ہاں سفید پوش کہا جاتا ہے۔ [٦٧] محنت کرنے والے کو معاوضہ لے لینا چاہئے :۔ یعنی زکوٰۃ کو وصول کرنے والے، تقسیم کرنے والے اور ان کا حساب کتاب رکھنے والا سارا عملہ اموال زکوٰۃ سے معاوضہ یا تنخواہ لینے کا حقدار ہے۔ اس عملہ میں سے اگر کوئی شخص خود مالدار ہو تو بھی معاوضہ یا تنخواہ کا حقدار ہے اور اسے یہ معاوضہ لینا ہی چاہیے خواہ بعد میں صدقہ کر دے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدنا عبداللہ بن السعدی کہتے ہیں کہ دور فاروقی میں میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا۔ انہوں نے مجھے کہا : ’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم لوگوں کے کام کرتے ہو اور جب تمہیں اس کی اجرت دی جائے تو تم اسے ناپسند کرتے ہو؟‘‘ میں نے کہا ’’ہاں‘‘ انہوں نے پوچھا ’’پھر اس سے تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘میں نے جواب دیا کہ ’’میرے پاس گھوڑے ہیں غلام ہیں اور مال بھی ہے میں چاہتا ہوں کہ اپنی اجرت مسلمانوں پر صدقہ کر دوں۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’ایسا نہ کرو، کیونکہ میں نے بھی یہی ارادہ کیا تھا جو تم نے کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ دیتے تو میں کہہ دیتا کہ یہ آپ اسے دے دیں جو مجھ سے زیادہ محتاج ہے۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یہ لے لو، اس سے مالدار بنو، پھر صدقہ کرو، اگر تمہارے پاس مال اس طرح آئے کہ تم اس کے حریص نہ ہو اور نہ ہی اس کا سوال کرنے والے ہو تو اس کو لے لیا کرو اور اگر نہ ملے تو اس کی فکر نہ کیا کرو۔ ‘‘ (بخاری۔ کتاب الاحکام۔ باب رزق الحاکم والعاملین علیھا- مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب اباحۃ الاخذ لمن اعطی من غیر مسئلۃ ) زکوٰۃ کی فراہمی اور تقسیم حکومت کی ذمہ داری :۔ ضمناً اس جملہ سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ زکوٰۃ کی فراہمی اور تقسیم اسلامی حکومت کا فریضہ ہے اور انفرادی طور پر زکوٰۃ صرف اس صورت میں ادا کرنا چاہیے جب ایسا نظام زکوٰۃ قائم نہ ہو اور اگر کوئی خاندان، برادری، یا قوم اپنے اہتمام میں اجتماعی طور پر فراہمی زکوٰۃ اور اس کی تقسیم کا کام کرلے تو یہ انفرادی ادائیگی سے بہتر ہے۔ [٦٨] تالیف کے حقدار :۔ اس مدد سے ان کافروں کو بھی مال دیا جا سکتا ہے جو اسلام دشمنی میں پیش پیش ہوں اگر یہ توقع ہو کہ مال کے لالچ سے وہ اپنی حرکتیں چھوڑ کر اسلام کی طرف مائل ہوجائیں گے اور ان نو مسلموں کو بھی جو نئے مسلم معاشرہ میں ابھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل نہ ہوں اور انہیں اپنی معاشی حالت سنبھلنے تک مستقل وظیفہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو سونا بھیجا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی کافروں میں تقسیم کیا تھا۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں یہ کہہ کر اس مد کو حذف کردیا تھا کہ اب اسلام غالب آ چکا ہے اور اب اس مد کی ضرورت نہیں رہی۔ لیکن حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے لہٰذا عندالضرورت اس مد کو بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ [٦٩] اجتماعی غلامی کا حال :۔ اس کی بھی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ کسی غلام کو خرید کر آزاد کردیا جائے۔ دوسری کسی مکاتب غلام کی بقایا رقم ادا کر کے اسے آزاد کرایا جائے۔ آج کل انفرادی غلامی کا دور گزر چکا ہے اور اس کے بجائے اجتماعی غلامی رائج ہوگئی ہے۔ بعض مالدار ممالک نے تنگ دست ممالک کو معاشی طور پر اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ لہٰذا آج علماء کو یہ غور کرنا چاہیے کہ ایسے غلام ممالک کی رہائی کے لیے ممکنہ صورتیں کیا ہونی چاہئیں؟ مثلاً آج کل پاکستان بیرونی ممالک اور بالخصوص امریکہ کے سودی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور مسلمان تاجر اتنے مالدار بھی ہیں کہ وہ حکومت سے تعاون کریں تو وہ یہ قرضہ اتار بھی سکتے ہیں بشرطیکہ انہیں یہ یقین دہانی کرا دی جائے کہ ان کی زکوٰۃ کا یہ مصرف درست ہے اور حکومت اسلامی نظام کے نفاذ میں مخلص ہے۔ [٧٠] مقروض کے قرضہ کی ادائیگی :۔ یہاں قرض سے مراد خانگی ضروریات کے قرضے ہیں تجارتی اور کاروباری قرضے نہیں اور قرض دار سے مراد ایسا مقروض ہے کہ اگر اس کے مال سے سارا قرض ادا کردیا جائے تو اس کے پاس نقد نصاب سے کم مال رہتا ہو۔ یہ مقروض خواہ برسر روزگار ہو یا بے روزگار ہو اور خواہ وہ فقیر ہو یا غنی ہو۔ اس مد سے اس کا قرض ادا کیا جا سکتا ہے۔ [٧١] یعنی ہر ایسا کام جس میں اللہ کی رضا مطلوب ہو۔ اور یہ میدان بڑا وسیع ہے۔ اکثر ائمہ سلف کے اقوال کے مطابق اس کا بہترین مصرف جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کرنا ہے اور قتال فی سبیل اللہ اسی کا ایک اہم شعبہ ہے۔ بالفاظ دیگر اس مد سے دینی مدارس کا قیام اور اس کے اخراجات پورے کیے جا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہر وہ ادارہ بھی اس مصرف میں شامل ہے جو زبانی یا تحریری طور پر دینی خدمات سر انجام دے رہا ہے یا اسلام کا دفاع کر رہا ہو۔ بعض علماء کے نزدیک اس مد سے مساجد کی تعمیر و مرمت پر بھی خرچ کیا جا سکتا ہے۔ [٧٢] مسافر خواہ وہ فقیر ہو یا غنی ہو۔ اگر دوران سفر اسے ایسی ضرورت پیش آ جائے تو اس کی بھی مدد کی جا سکتی ہے مثلاً فی الواقع کسی کی جیب کٹ جائے یا مال چوری ہوجائے وغیرہ وغیرہ۔ [٧٣] محتاج زکوٰۃ کے زیادہ حقدار ہیں :۔ واضح رہے کہ زکوٰۃ کی فراہمی اور تقسیم کے لحاظ سے معاشرہ کو تین طبقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک اغنیاء کا طبقہ جن سے زکوٰۃ وصول کی جائے گی دوسرا فقراء و مساکین یا مقروضوں وغیرہ کا طبقہ۔ جسے زکوٰۃ دی جائے گی اور تیسرا متوسط طبقہ جس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی تاہم وہ زکوٰۃ کا مستحق بھی قرار نہیں دیا جا سکتا اور اس کے آمدنی کے ذرائع اتنے ہوتے ہیں جس سے اس کے اخراجات پورے ہوجاتے ہیں۔ غنی کی عام تعریف یہ ہے کہ جس شخص کے پاس محل نصاب اشیاء میں سے کوئی چیز بقدر نصاب یا اس سے زائد موجود ہو وہ غنی ہے اور جس کے پاس کوئی چیز بھی بقدر نصاب موجود نہ ہو وہ فقیر یا مسکین ہے۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ زکوٰۃ جس مقام کے اغنیاء سے وصول کی جائے گی اس کے سب سے زیادہ حقدار اسی مقام کے فقراء وغیرہ ہوتے ہیں۔ اگر کچھ رقم بچ جائے تو وہ مرکزی بیت المال میں جمع ہوگی۔ اس سلسلہ میں اب درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :۔ سیدنا ابراہیم بن عطاء اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ عمران ابن الحصین کو زکوٰۃ کی وصولی پر روانہ کیا گیا۔ وہ خالی ہاتھ واپس آ گئے تو ان سے پوچھا گیا کہ زکوٰۃ کا مال کہاں ہے؟ انہوں نے جواب دیا ’’مجھے زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کے واسطے روانہ کیا گیا۔ میں نے جن لوگوں سے لینا چاہیے تھا لیا اور جہاں دینا چاہیے تھا دے دیا۔‘‘ (ابن ماجہ۔ ابو اب الصدقہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ غنی کی حد کیا ہے؟ فرمایا ’’پچاس درہم یا اس کے برابر مالیت کا سونا (یا نقدی)‘‘ (نسائی۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب حد الغنیٰ) اور درہم چاندی کا ساڑھے چار ماشہ کا سکہ تھا اور پچاس درھم کا عوض ڈھائی دینار ہے جبکہ دینار ساڑھے تین ماشے سونے کا سکہ تھا۔ یعنی جس کے پاس تقریباً ٩ ماشہ سونا ہو وہ غنی ہے۔ اور ایسا شخص متوسط طبقہ میں شمار ہوگا۔ علاوہ ازیں درج ذیل قسم کے لوگ زکوٰۃ کے حقدار نہیں ہوتے :۔ الف۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ کے رشتہ دار جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔ ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے زکوٰۃ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور اٹھا کر منہ میں ڈال لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''چھی چھی'' تاکہ حسن اس کھجور کو منہ سے نکال پھینکیں۔ پھر فرمایا ’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم صدقہ کا مال نہیں کھاتے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب الصدقۃ للنبی ) لیکن اگر صدقہ کی کوئی چیز کسی مستحق کے واسطہ سے ہدیہ آل نبی کو مل جائے تو وہ جائز ہوگی۔ ٢۔ ام عطیہ کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں جا کر پوچھا’’کچھ کھانے کو ہے؟‘‘ انہوں نے کہا ’’کچھ نہیں صرف بکری کا وہ گوشت ہے جو آپ نے نُسَیْبَہ کو خیرات دی تھی اور نُسَیْبَہ نے تحفہ کے طور پر ہمیں بھیجا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لاؤ۔ خیرات تو اپنے ٹھکانے پر پہنچ چکی ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب اذا تحولت الصدقۃ) ٣۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ گوشت لایا گیا جو بریرہ کو خیرات میں ملا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بریرہ پر یہ صدقہ تھا اور ہمارے لیے یہ تحفہ ہے۔‘‘ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) ب۔ جو شخص تندرست، طاقتور اور کمانے کے قابل ہو وہ زکوٰۃ کا حقدار نہیں ہوتا :۔ ١۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ تقسیم فرما رہے تھے۔ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر صدقہ طلب کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’صدقات کی تقسیم میں اللہ کسی نبی یا کسی دوسرے کی تقسیم پر راضی نہیں ہوا۔ اس نے خود فیصلہ کیا اور اسے آٹھ اجزاء میں تقسیم کردیا۔ اگر تو بھی ان کے ذیل میں آتا ہے تو میں تمہیں دے دیتا ہوں۔‘‘ (ابو داؤد۔ نسائی۔ کتاب الزکوٰۃ باب مسئلۃ القوی المکتسب) ٢۔ حجۃ الوداع کے موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ تقسیم فرما رہے تھے۔ دو ہٹے کٹے آدمی آئے اور صدقہ کا سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر اٹھا کر انہیں دیکھا۔ پھر نظر نیچے کرلی اور فرمایا ’’اگر تم چاہتے ہو تو میں تمہیں دے دیتا ہوں لیکن صدقہ میں غنی اور قوی کا کوئی حصہ نہیں۔ جو کما سکتا ہو۔ ‘‘ (ابو داؤد۔ نسائی۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب مسئلۃ القوی المکتسب ) ج۔ جو افراد کسی کے زیر کفالت ہوں۔ وہ انہیں زکوٰۃ نہیں دے سکتا۔ مثلاً بیوی اور اولاد کو۔ اسی طرح اگر باپ بوڑھا ہوچکا ہو اور اس کی کفالت اس کے بیٹے کے ذمہ ہو تو بیٹا باپ کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں صاحب مال ہوں اور میرا والد محتاج ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تو اور تیرا مال سب کچھ تیرے باپ کا ہے۔ اولاد ہی تمہاری پاکیزہ کمائی ہوتی ہے اور اپنی اولاد کی کمائی سے تم کھا سکتے ہو۔ ‘‘ (ابو داؤد۔ ابن ماجہ بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب النفقات وحق المملوک) اس لحاظ سے عورت اپنے خاوند کو زکوٰۃ دے سکتی ہے کیونکہ خاوند بیوی کے زیر کفالت نہیں ہوتا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔ سیدہ زینب (زوجہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آئیں۔ وہاں ایک اور انصاری عورت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر پایا۔ وہ بھی وہی مسئلہ پوچھنے آئی تھی جو میں پوچھنا چاہتی تھی۔ اتنے میں بلال رضی اللہ عنہ نکلے۔ ہم نے ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو کہ اگر میں اپنے خاوند اور چند یتیموں کو جو میری پرورش میں ہیں خیرات کر دوں تو کیا یہ درست ہوگا ؟ ہم نے بلال رضی اللہ عنہ سے یہ بھی کہا کہ ہمارا نام نہ لینا۔ بلال رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ دو عورتیں یہ مسئلہ پوچھ رہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’کونسی عورتیں؟‘‘ بلال رضی اللہ عنہ نے کہ’’زینب نامی ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’کونسی زینب؟‘‘ بلال رضی اللہ عنہ نے کہا ’’ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی'' آپ نے فرمایا ’’ہاں یہ صدقہ درست ہے اور اس کے لیے دوہرا اجر ہے ایک قرابت کا دوسرے صدقہ کا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب الزکوٰۃ علی الزوج والا یتام فی الحجر)