سورة التوبہ - آیت 42

لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوكَ وَلَٰكِن بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ ۚ وَسَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنفُسَهُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اگر کوئی فوری فائدہ (34) ہوتا، اور سفر مختصر ہوتا تو وہ (منافقین) آپ کے پیچھے ہو لیتے، لیکن ان کے لیے مسافت لمبی اور کٹھن ہوگئی، اور وہ اللہ کی قسم کھا جائیں گے کہ اگر ہمارے لیے ممکن ہوتا تو تمہارے ساتھ ضرور نکلتے، یہ خود اپنی ہلاکت کا سامان کر رہے ہیں، اور اللہ جانتا ہے کہ وہ لوگ نرے جھوٹے ہیں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤٦] منافقوں کے عذر :۔ یعنی اگر تھوڑی سی محنت کے بعد منافقوں کو مال غنیمت ہاتھ آ جانے کی توقع ہوتی اور سفر بھی اتنا طویل اور پر مشقت نہ ہوتا تو پھر تو یہ منافق یقیناً آپ کے ہمراہ نکلنے کو تیار ہوجاتے۔ لیکن شام تک کا سفر، وہ بھی شدید گرمی کے موسم میں جبکہ سواریاں بھی بہت کم ہیں اور آگے مقابلہ بھی ایک بہت دبدبے والی حکومت سے ہے جہاں فتح کے بجائے ناکامی کے آثار دکھائی دیتے ہیں تو ایسی صورت میں یہ کیسے آپ کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ اب تو وہ یہی قسمیں کھائیں گے کہ اس وقت ہمارے حالات سازگار نہیں۔ ورنہ ہمیں آپ کے ہمراہ جانے میں کوئی عذر نہ ہوتا۔ اور وہ جھوٹے اس لحاظ سے نہیں ہیں کہ حقیقتاً جو باتیں اور خدشات انہیں جہاد پر جانے سے روک رہے ہیں انہیں وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں اور آپ کے سامنے ظاہر کر ہی نہیں سکتے۔ لہٰذا ادھر ادھر کی باتیں عذر کے طور پر پیش کردیتے ہیں۔