سورة التوبہ - آیت 30

وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ۖ ذَٰلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ ۖ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور یہود نے کہا کہ عزیر اللہ کے بیٹے (24) ہیں اور نصاری نے کہا کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں، یہ ان کے منہ کی بکواس ہے، ان لوگوں کے قول کی مشابہت اختیار کرتے ہیں جنہوں نے ان سے پہلے کفر کیا تھا، اللہ انہیں ہلاک کردے، کس طرح حق سے پھرجا رہے ہیں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٠] بخت نصر بابلی سے یہودیوں کی پٹائی :۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام کی حکومت کے بعد پھر یہودیوں پر اللہ کی نافرمانیوں کی وجہ سے زوال آیا اور بخت نصر بابلی نے فلسطین پر پے در پے حملے کر کے اس کو تباہ و برباد کردیا۔ تورات اور تمام مذہبی کتابوں کو جلا کر خاکستر کرایا اور بنی اسرائیل کی ایک کثیر تعداد کو قید کر کے اپنے ساتھ بابل لے گیا۔ انہیں قیدیوں میں عزیر علیہ السلام بھی تھے جو ابھی کمسن ہی تھے۔ کچھ مدت غالباً سات سال بعد اس نے ان قیدیوں کو رہا کیا۔ اس دوران یہ اسرائیل اپنی زبان تک بھول چکے تھے۔ عزیر علیہ السلام نے اپنے وطن واپسی کے دوران ایک اجڑی بستی کو دیکھا جو بخت نصر کے ہاتھوں ہی برباد ہوئی تھی۔ اس واقعہ کا ذکر سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٥٩ کے تحت تفصیل سے گزر چکا ہے۔ اس کے بعد آپ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی۔ آپ کو تورات پوری کی پوری زبانی یاد تھی۔ لہٰذا آپ نے ازسر نو تورات لکھی اس طرح یہود کی الہامی کتاب دوبارہ ان کے ہاتھ آئی۔ (تورات میں آپ کا نام عزرا مذکور ہے) اسی وجہ سے یہودی آپ کی بہت تعظیم کرتے تھے۔ اور بعض نے اس تعظیم میں اس درجہ غلو کیا کہ انہیں اللہ کا بیٹا کہنے لگے۔ اللہ کی اولاد قرار دینے والے فرقے :۔ اور نصاریٰ نے مسیح کو اللہ کا بیٹا قرار دے دیا تھا جس کی وجہ ان کی معجزانہ پیدائش، آپ کو اللہ کے عطاکردہ معجزات اور آپ کا آسمان پر اٹھایا جانا تھا۔ جس کا ذکر قرآن میں جا بجا مذکور ہے۔ ان اہل کتاب نے دراصل سابقہ اقوام کے فلسفہ و اوہام سے متاثر ہو کر ایسے گمراہ کن عقائد اختیار کرلیے تھے۔ بعض نصاریٰ ایسے بھی تھے جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو خدا یا تین خداؤں میں سے ایک خدا ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے اور کچھ انہیں خدا کا بیٹا قرار دیتے تھے اور اس آیت میں سابقہ اقوام سے مراد یونانی، ہندی اور مصری تہذیبیں ہیں۔ جنہوں نے اللہ کی بیوی، بیٹے بیٹیاں پھر اس سے آگے اس کی اولاد کی نسل چلا کر ایسے دیوی دیوتاؤں کی ایک پوری دیو مالا تیار کردی تھی اور اس کے اثرات ملک عرب میں بھی پائے جاتے تھے۔