وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ
اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے بعض، بعض کے دوست (63) ہیں، اگر تم ایسا نہیں کرو گے (64) (یعنی مسلمانوں سے دوستی اور کافروں سے ترک تعلقات) تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد برپا ہوجائے گا
[٧٥] مسلمانوں کے اتحاد نہ کرنے برے نتائج :۔ یعنی کافر اور مسلم میں نہ حقیقی رفاقت ہے اور نہ وہ ایک دوسرے کے وارث ہو سکتے ہیں۔ ہاں کافر کافر کا ولی بھی ہے اور وارث بھی۔ بلکہ سارے کے سارے کافر تمہاری دشمنی میں متحد ہو کر ایک بن جاتے ہیں اور جہاں بھی مسلمانوں کو پاتے ہیں ان کے درپے آزار ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اگر مسلمان بھی ایک دوسرے کے ولی اور مددگار نہ ہوں گے یا کمزور مسلمان اپنے آپ کو آزاد مسلمانوں کے ساتھ رہنے اور ان کا ہر طرح سے ساتھ دینے کی کوشش نہ کریں گے تو بہت بڑا فتنہ رونما ہوجائے گا۔ کمزور مسلمانوں پر ناروا ظلم و زیادتی ہوگی اور ان کا مال بلکہ ایمان بھی محفوظ نہ رہے گا اور اگر اس جملے کا تعلق سابقہ تمام احکام سے جوڑا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ اگر دارالحرب میں رہنے والے مسلمان دارالاسلام میں آنے میں کوتاہی کریں یا ایسے کمزور مسلمان آزاد مسلمانوں سے مددطلب کریں اور وہ مدد کو نہ پہنچیں' یا معاہدہ کرنے والی اسلامی حکومت اپنے معاہدہ کا پاس نہ رکھتے ہوئے ان کمزور مسلمانوں کی مدد شروع کر دے تو ان سب صورتوں میں عظیم فتنہ رونما ہوجائے گا۔ ایسا فتنہ جو دارالاسلام میں بسنے والے آزاد مسلمانوں کو بھی طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلا کرسکتا ہے۔